• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حَسین وادیاں، بلند و بالا برف پوش پہاڑ، پھلوں سے لدے باغات،جن کے بیچ رنگ برنگے پرندوں کے مسحور کُن گیت، سر سبز لہلہاتے کھیت، یہ ہے میرا کشمیر، آپ کا کشمیر، ہم سب کا کشمیر…مگر اب اُس کی پہچان یہ قدرتی حُسن نہیں، جو آنکھوں کو خیرہ کرتا ہے، بلکہ بچّوں کی چیخیں، جوان لاشے تھامے ماؤں کی سِسکیاں، گھروں سے اُٹھتے آگ کے شعلے، لڑکیوں کی ویران آنکھیں، جو اُن پر فوجی کیمپس میں بیتی اَلم ناک کہانیاں سُناتی ہیں، ایسی کہانیاں، جو سینے چیر ڈالیں۔مِٹتی بستیاں اور بڑھتے قبرستان، یہ ہے آج کا کشمیر۔ یہ کوئی دو چار برس کا قصّہ نہیں، ظلم کی اِس سیاہ رات کو پون صدی بیت چُکی۔ وہ اذیتیں، مصیبتیں سہہ رہے ہیں…مگر پھر بھی حوصلے بلند ہیں، صرف مرد…؟؟نہیں ،عورتیں بھی۔صرف جوان؟ نہیں ،بوڑھے بھی۔ گولیاں چلیں یا گھر جلیں…سب کا آج بھی ایک ہی نعرہ ہے’’ ہم کیا مانگیں…آزادی‘‘ اور’’ کشمیر بنے گا، پاکستان‘‘، ایسا ہوگا اور ضرور ہوگا۔ اِن شاء اللہ

سرزمینِ مہر و وفا

دو لاکھ 22 ہزار 236 مربع کلومیٹر پر مشتمل کشمیر اِن دنوں تین ممالک بھارت، پاکستان اور چین میں منقسم ہے۔ بھارت کے پاس اس کا46 فی صد، پاکستان کے پاس 38 فی صد، جب کہ چین کے پاس کشمیر کا16 فی صد حصّہ ہے۔ مختلف رپورٹس کے مطابق، اِس پورے کشمیر کی مجموعی آبادی ایک کروڑ 85 لاکھ کے قریب ہے، جس میں آزاد کشمیر کی آبادی 60 لاکھ 45 ہزار 366 ، جب کہ مقبوضہ کشمیر کی آبادی ایک کروڑ 25 لاکھ 41 ہزار 302 ہے۔ بھارت کے زیرِ قبضہ وادیٔ کشمیر میں 95 فی صد مسلمان اور 4 فی صد ہندو بستے ہیں۔ جمّوں اور لداخ میں بھی مسلمان بہت بڑی تعداد میں ہیں۔ بھارت نے 2011ء کی مردم شماری میں جمّوں و کشمیر میں مسلمانوں کی مجموعی آبادی68 فی صد ظاہر کی، جس پر مختلف حلقوں کی جانب سے سنجیدہ اعتراضات سامنے آئے۔ پھر یہ کہ بھارت ،مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب بدلنے کے لیے ایک منظّم سازش پر بھی کام کر رہا ہے، جس میں غیر مقامی افراد کی وہاں آبادکاری بھی شامل ہے۔

تنازعے کی ابتدا

ہندوستان میں 565 کے لگ بھگ آزاد ریاستیں تھیں، جنھیں تقسیمِ ہند کے وقت پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق یا پھر آزادانہ حیثیت برقرار رکھنے کا حق دیا گیا۔ کشمیر بھی اُن میں سے ایک ریاست تھی، جس پر مہاراجہ ہری سنگھ کی حکومت تھی، تاہم آبادی کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل تھی۔وہاں کے عوام کیا چاہتے تھے، اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جنوری 1947 ء میں کشمیر کی ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں مسلم کانفرنس نے کام یابی حاصل کی اور پھر اسمبلی نے 19 جولائی 1947ء کو پاکستان کے ساتھ الحاق کی قرار داد منظور کی۔ مگر عوامی خواہشات کے برعکس، مہاراجہ نے اپنی حکومت بچانے کے لیے ریاست کی آزادانہ حیثیت برقرار رکھنے کی کوشش کی اور اِس مقصد کے لیے اپنے ہم مذہب ہندوؤں کو مسلّح کرنا شروع کردیا۔

اس طرح مسلمانوں کے خلاف ظلم و جبر کا نیا باب کُھل گیا، جس پر وہاں کے عوام اُس کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے۔ پاکستان کے پختون قبائل بھی اپنے مظلوم بھائیوں کی مدد کو پہنچے، یہاں تک کہ حریّت پسند سری نگر تک جا پہنچے، جس پر راجا پہلے جمّوں اور پھر وہاں سے بھی فرار ہو کر دہلی پہنچ گیا۔ اس کے بعد لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور بھارتی وزیرِ اعظم، جواہر لال نہرو نے ایک سازش کے تحت اعلان کردیا کہ راجا نے کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق کردیا ہے اور پھر دوسرے ہی روز، یعنی 27 اکتوبر 1947 ء کو بھارتی افواج کشمیر میں داخل ہوگئیں اور اب تک وہاں قابض ہیں۔

یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ بھارتی حکومت نے تقسیمِ ہند کے موقعے پر کئی ایسی ریاستوں پر قبضہ کرلیا تھا، جس کے حکم ران مسلمان تھے اور اس قبضے کا جواز یہ پیش کیا کہ اُن ریاستوں میں اکثریتی آبادی ہندوؤں پر مشتمل ہے، مگر اُس نے یہ فارمولا کشمیر میں اپنانے سے انکار کردیا۔ گو کہ ماؤنٹ بیٹن اور نہرو نے کشمیر کے بھارت سے الحاق کے اعلان کے ساتھ یہ بھی واضح کیا تھا کہ یہ الحاق عارضی ہے اور حالات درست ہوتے ہی عوامی منشا کے مطابق خطّے کے مستقبل کا فیصلہ ہوگا، اس ضمن میں نہرو کی تقاریر اور خطوط ریکارڈ پر ہیں، مگر 72 برس گزرنے کے باوجود یہ وعدہ وفا نہ ہوا، بلکہ اب بھارت ان حقائق تک سے انکاری ہے۔

آزادی کی پہلی جنگ

کشمیری عوام پاکستان کے ساتھ الحاق کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے، تو بھارت نے اپنی فوجیں وہاں بھیج دیں، جس پر قائدِ اعظم، محمّد علی جناح کے حکم پر پاک فوج نے بھی پیش قدمی کی، یوں دونوں ممالک کے درمیان باقاعدہ جنگ چھڑ گئی۔ 14 ماہ جاری رہنے والی یہ جنگ یکم جنوری 1949ء کو اقوامِ متحدہ کی مداخلت پر بند ہوئی ۔کہا جاتا ہے کہ اس دَوران حریّت پسند سری نگر تک پہنچ گئے تھے، قائدِ اعظم نے فوج کو فیصلہ کُن کارروائی کا حکم دیا، مگر اُس وقت کے انگریز آرمی چیف نے اُن کے احکامات نظر انداز کر دیے، جس کی وجہ سے حریّت پسندوں کی پیش قدمی نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکی، تاہم پھر بھی وہ موجود آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کا ایک بڑا حصّہ بھارتی قبضے سے آزاد کروانے میں کام یاب رہے۔

اقوامِ متحدہ میں گونج

بھارت کو عوام کے ہاتھوں اپنی شکست واضح طور پر نظر آ رہی تھی، جس پر وزیرِ اعظم، جواہر لال نہرو یکم جنوری 1948 ء کو خود یہ مسئلہ اقوامِ متحدہ لے گئے۔ سلامتی کاؤنسل نے طویل بحث مباحثے کے بعد نہ صرف یہ کہ دونوں ممالک میں جنگ بندی کروائی، بلکہ اپنی قراردادوں کے ذریعے تنازعے کو کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل کرنے پر بھی زور دیا۔ اس مقصد کے لیے کمیشن بھی بنائے گئے اور بھارت کو پابند کیا گیا کہ وہ اقوامِ متحدہ کے نام زَد کردہ رائے شماری کمشنر کی تعیّناتی یقینی بنائے، جو ریاست میں غیر جانب دارانہ رائے شماری کروائے، تاہم بھارت نے ہمیشہ ٹال مٹول سے کام لیا۔ 

ماہرین کے مطابق، اقوامِ متحدہ نے ابتدائی9 برسوں میں تنازعۂ کشمیر کے حل کے لیے واقعی سنجیدہ کوششیں کیں، مگر پھر یہ معاملہ سرد خانے کی نذر ہوگیا۔ 1954ء میں مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پُتلی اسمبلی نے ریاست کا بھارت سے الحاق منظور کر لیا، یہ ایک بھارتی ڈراما تھا، جسے اقوامِ متحدہ نے مکمل طور پر مسترد کردیا۔ گزشتہ ماہ بھارتی حکومت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے سے خطّے میں جو دھماکا خیز صُورتِ حال پیدا ہوئی، وہ سلامتی کاؤنسل کے بھی جاگنے کا سبب بنی اور یوں اس عالمی ادارے کا 1965ء کے بعد پہلی بار کشمیر کے مسئلے پر اجلاس ہوا۔

’’ تنگ آمد، بجنگ آمد‘‘

گو کہ کشمیری عوام تقسیمِ ہند سے قبل بھی ڈوگرہ راج کے خلاف مزاحمت کرتے رہے تھے، مگر قیامِ پاکستان کے بعد ماؤنٹ بیٹن، نہرو اور راجا پر مشتمل ٹرائیکا نے جس طرح اُن کی خواہشات کا قتلِ عام کیا، وہ اُن کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ تھا، لہٰذا عوام نے پاکستان کے ساتھ الحاق نہ ہونے پر تاریخی جدوجہد کی اور کشمیر کے ایک حصّے سے قبضہ چھڑوانے میں کام یاب بھی رہے۔ اس کے بعد بھی اُن کی جدوجہد کسی نہ کسی صُورت جاری رہی، تاہم 1989 ء کے بعد کشمیریوں نے مجبور ہو کر اپنی مدد آپ کے تحت اور’’ تنگ آمد، بجنگ آمد‘‘ کے مِصداق قابض بھارتی افواج کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے، یوں منظّم مسلّح جدوجہد کا آغاز ہوگیا۔

2016 ء میں قابض فوج کی جانب سے 22 سالہ حریّت پسند، برہان وانی کی شہادت کے بعد مقبوضہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے۔ پچاس ہزار سے زاید افراد کرفیو سمیت تمام رکاوٹیں توڑتے ہوئے شہید قائد کے جنازے میں شریک ہوئے، جن میں خواتین کی بھی بڑی تعداد شامل تھی۔ اس واقعے سے کشمیر کی تحریکِ آزادی میں ایک نئی جان پڑی۔یہ بات واضح ہے کہ کشمیری اپنی جنگِ آزادی خود لڑ رہے ہیں، اُنھیں پاکستان سمیت باقی دنیا کی صرف اخلاقی اور قانونی مدد حاصل ہے، جو عالمی قوانین کے تحت اس طرح کے تمام حریّت پسندوں کا حق تسلیم کیا جاتا ہے۔

تنازعے کے حل کی کوششیں

سب سے پہلے اقوامِ متحدہ نے یہ تنازع حل کرنے کی کوشش کی، مگر بھارت کی ہٹ دھرمی اور کچھ دیگر عالمی عوامل کی وجہ سے یہ کوششیں بار آور ثابت نہ ہو سکیں۔1965 ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان17 روزہ لڑائی کے بعد روسی وزیرِ اعظم کی میزبانی میں تاشقند میں ہونے والے مذاکرات میں بھارتی وزیرِ اعظم، لال بہادر شاستری اور پاکستان کے صدر، ایّوب خان نے کشمیر سمیت تمام مسائل بات چیت کے ذریعے طے کرنے پر اتفاق کیا۔ ابھی بات آگے بڑھ بھی نہ پائی تھی کہ 1971 ء میں پھر دونوں ملکوں کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔بعدازاں، ذوالفقار علی بھٹّو اور بھارتی وزیر اعظم، اندرا گاندھی کے درمیان شملہ میں ایک سمجھوتا طے پایا، جس میں دونوں ملکوں نے کشمیر سمیت تمام مسائل دو طرفہ بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر اتفاق کیا۔

اس معاہدے کو بھارت نے ہمیشہ اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی اور اسی کی بنیاد پر وہ مسئلۂ کشمیر میں کسی تیسرے فریق کی مداخلت کی مخالفت کرتا ہے۔ ایک طویل وقفے کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما اور بھارت کے وزیر اعظم، اٹل بہاری واجپائی بس کے ذریعے لاہور پہنچے اور پاکستانی وزیرِ اعظم، میاں نواز شریف کے ساتھ قیامِ پاکستان کی ایک خاص علامت،’’ مینارِ پاکستان‘‘ کا دورہ کیا۔نیز، واجپائی نے کشمیر سمیت تمام مسائل پُرامن طور پر حل کرنے کی بھی بات کی، یہی وجہ ہے کہ ماہرین نے اس دورے کو مسئلۂ کشمیر کے تناظر میں ایک بڑا بریک تھرو قرار دیا۔ تاہم کارگل جنگ کے سبب بات چیت آگے نہ بڑھ پائی۔ واجپائی دوسری بار وزیرِ اعظم بنے، تو صدر پرویز مشرف کو آگرہ آنے کی دعوت دی، جہاں دونوں رہنماؤں نے کشمیر پر طویل مذاکرات کیے۔اُس وقت کے وزیر خارجہ، خورشید محمود قصوری کا اپنے انٹرویوز میں کہنا ہے کہ دونوں مُلک آگرہ مذاکرات میں مسئلہ کشمیر کے حل کے قریب پہنچ گئے تھے۔ تاہم، بعد میں دونوں طرف کے سیاسی حالات اس قدیم تنازعے کے حل کے لیے موافق نہیں رہے۔ 

اس کے بعد بھی دونوں ممالک کے درمیان بیک ڈور چینلز استعمال کرنے کی خبریں گردش میں رہیں، تاہم عملی طور پر کوئی واضح صُورت سامنے نہ آسکی۔ وزیرِ اعظم، عمران خان نے توقّع ظاہر کی تھی کہ اگر بھارت کے عام انتخابات میں دوسری بار بھی نریندر مودی کام یاب ہوئے، تو اس سے مسئلۂ کشمیر کے حل میں مدد ملے گی، وہ کام یاب تو ہوگئے، مگر اُن کے اقدامات سے کشمیر کا تنازع مزید پیچیدگیوں سے دوچار ہوگیا ہے۔تاہم، بعض افراد یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ کشمیر تنازع حل کرنے کے لیے اب بھی بیک ڈور چینلز کے ذریعے کوششیں ہو رہی ہیں۔

عالمی برادری کا کردار

عالمی برادری کا اس معاملے میں کردار قابلِ مذمّت حد تک افسوس ناک رہا ہے۔ کشمیر میں گزشتہ 72 برسوں سے آگ و خون کا کھیل جاری ہے۔ مستند عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق، لاکھوں افراد جان سے ہاتھ دھو چُکے ہیں، جب کہ زخمیوں کی تعداد تو اعداد وشمار سے باہر ہے۔ نیز، قابض افواج خواتین اور بچّوں تک پر سیدھی گولیاں برسا رہی ہیں، سیکڑوں بچّے پیلٹ گنز کے استعمال کے باعث اپنی بینائی کھو چُکے ہیں، خواتین کی عصمت دری کے واقعات عام ہیں، مگر اس سب کچھ کے باوجود عالمی برادری، انسانی حقوق کے ادارے، خواتین اور بچّوں کے نام پر نہ جانے کیا، کیا کچھ کرنے والے کشمیر کے معاملے پر آنکھیں موندے بیٹھے ہیں۔ 

یہاں تک کہ اقوامِ متحدہ اپنی ہی قراردادوں پر عمل درآمد کروانے سے قاصر ہے۔ اس ضمن میں عوام اسلامی ممالک اور اُن کی مختلف تنظیموں سے بھی مزید متحرّک کردار کی توقّع رکھتے ہیں۔ بعض اوقات شر سے بھی خیر برآمد ہوجاتا ہے، سو،نریندر مودی کے حالیہ اقدام کے بعد عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر دوبارہ ہائی لائٹ ہوا ہے۔ سلامتی کاؤنسل نے برسوں بعد اس معاملے پر خصوصی اجلاس کیا، تو یورپی پارلیمنٹ کے اجلاس میں مسئلہ کشمیر پر 12 برس بعد بحث کی گئی۔ علاوہ ازیں، دنیا کے تقریباً تمام بڑے ممالک کی جانب سے کشمیر کی صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بھی مسئلے کے حل میں دِل چسپی کا اظہار کیا گیا، تو روس نے بھی، جو ہمیشہ سلامتی کاؤنسل میں بھارت کے خلاف پیش ہونے والی قراردادوں کو ویٹو کرتا رہا ہے، پہلی بار کُھل کر کشمیر کے حق میں بات کی۔ 

یقیناً یہ سب اہم اشارے ہیں اور اس عالمی حمایت سے زیادہ سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔اس ضمن میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ بھارت ہمیشہ پروپیگنڈے کے زور پر کشمیر میں جاری جدوجہدِ آزادی کو دہشت گردی ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے، خاص طور پر نائن الیون کے بعد اُس نے بہت سے ممالک کو اپنا ہم نوا بھی بنالیا۔ لہٰذا، متحرّک سفارت کاری اور عالمی قوانین کی پاس داری کرتے ہوئے بھارت کے اس پروپیگنڈے کا توڑ بے حد ضروری ہے کہ اس کے بغیر کشمیر کا مقدمہ نہیں لڑا جا سکتا۔

آرٹیکل 370 کا معاملہ

گزشتہ ماہ کی پانچ تاریخ کو بھارتی حکومت نے اچانک اپنے آئین میں جموّں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کا ضامن،’’ آرٹیکل 370 ‘‘ ختم کردیا۔ یہ اتنا اچانک فیصلہ بھی نہیں تھا، کیوں کہ نریندر مودی اپنے انتخابی منشور میں اس کا اعلان کرچُکے تھے۔ماہرین کے مطابق، آرٹیکل 370 بھارت اور ریاست جمّوں و کشمیر کے درمیان ایک ایسا معاہدہ تھا، جس میں ترمیم یا منسوخی یک طرفہ طور پر نہیں ہو سکتی۔ 

جمّوں و کشمیر کو بھارتی آئین میں خصوصی حیثیت ملنے کی وجہ مہاراجہ اور دیگر سیاسی قیادت کا مطالبہ تھا۔اس معاہدے کے تحت بھارتی حکومت دفاع، خارجہ امور اور مواصلات کے علاوہ باقی معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتی تھی۔ اس مقصد کے لیے بھارتی آئین میں ایک نئے آرٹیکل 370 کا اضافہ کیا گیا۔پھر 14 مئی 1954 ء کو آرٹیکل 370 میں 35 اے کا اضافہ کیا گیا، جس کے تحت غیر مقامی افراد کے کشمیر میں جائیداد خریدنے پر پابندی عاید کردی گئی، جو راجا کے دور میں بھی تھی۔ دراصل آئین کی یہ شق مسئلہ کشمیر کے حل کا راستہ تھا کہ ریفرنڈم کی صورت میں صرف ریاستی عوام ہی ووٹ ڈال سکیں۔

پاکستان کا کردار

پاکستان روزِ اوّل سے اپنے کشمیری بھائیوں کی اخلاقی اور قانونی مدد کر رہا ہے۔ اِس نے اقوامِ متحدہ سمیت ہر فورم پر کشمیر کا مقدمہ لڑا ہے۔ چوں کہ بدلتی عالمی صُورتِ حال کے سبب بعض اوقات سفارتی سطح پر کچھ مشکلات کا بھی سامنا رہا ہے، مگر پاکستان نے ٹھوس دلائل سے ثابت کیا کہ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی ہر لحاظ سے جائز اور عالمی قوانین کے عین مطابق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب دنیا بھارت کی فریب کاریوں سے واقف ہوتی جا رہی ہے اور ہر طرف سے کشمیریوں کے حق میں آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ لندن، پیرس، واشنگٹن، اوسلو سمیت کئی شہروں میں ہونے والے مظاہروں میں مقامی افراد کی شرکت اس کی واضح علامت ہے۔

عوام کی کشمیر کاز سے وابستگی

جس طرح کشمیری لاٹھی اور گولی سے ڈرے بغیر’’ پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعرے بلند کرتے ہیں، اِسی طرح پاکستانیوں کے دِلوں میں بھی کشمیر بستا ہے۔جو لاٹھی کسی ضعیف کشمیری پر برستی ہے، اُس کا درد سرحد کے اِس پار بھی محسوس کیا جاتا ہے۔ 

نوجوانوں کے سینوں میں اُترنے والی گولیاں، یہاں کے نوجوانوں کے سینوں کو بھی چھلنی کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی عوام ہمیشہ کشمیریوں بھائیوں کے شانہ بشانہ رہے ہیں۔ امیر جماعتِ اسلامی، قاضی حسین احمد نے ہر برس 5 فروری کو ’’ یوم یک جہتیٔ کشمیر‘‘ منانے کا اعلان کیا ، تو پوری قوم نے اُس پر لبیّک کہا اور اب یہ دن، قومی دن کا رُوپ دھار چُکا ہے۔بھارت کے کشمیر دشمن اقدام کے خلاف پچھلے دنوں وزیرِ اعظم، عمران خان نے شہریوں سے آدھے گھنٹے کے لیے گھروں سے باہر نکلنے کی اپیل کی، تو پوری قوم سیاسی اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کے نعرے لگاتی سڑکوں پر نکل آئی۔

بھارتی میڈیا ، پروپیگنڈا سیل

بھارت نے ایک طرف کشمیر کو عالمی میڈیا کے لیے’’ نوگو ایریا‘‘ بنا رکھا ہے، تو دوسری طرف، اپنے میڈیا کو’’ جھوٹ کی فیکٹری‘‘ بنا ڈالا ۔ بھارتی میڈیا دنیا کو ایک ایسا کشمیر دِکھانے کے جتن کر رہا ہے، جہاں ہر طرف سُکھ ہی سُکھ ہے، مگر اُس کے پاس اِس سوال کا کوئی جواب نہیں کہ اگر صُورتِ حال اتنی ہی پُرسکون ہے، تو پھر یہ طویل کرفیو کس لیے؟ اور عالمی میڈیا کو وہاں تک رسائی کیوں نہیں دی جا رہی؟ یہی وجہ ہے کہ دنیا کم ازکم کشمیر کے حوالے سے بھارتی میڈیا کو’’ حکومتی پروپیگنڈا سیل‘‘ سے زیادہ اہمیت نہیں دیتی اور اُس کی بیش تر رپورٹس مذاق کا بھی نشانہ بنتی ہیں۔ اس کے برعکس، پاکستانی میڈیا نے ہمیشہ کشمیر کو میرٹ پر جگہ دی ہے اور اُس کا وہی چہرہ دِکھایا ہے، جو حقیقی ہے۔پاکستان کے نیوز چینلز ہوں یا اخبارات وجرائد، سب تسلیم شدہ عالمی قوانین اور اُصول وضوابط کے مطابق کشمیر پر رپورٹنگ کرتے ہیں اور یہی سبب ہے کہ دنیا کشمیر کے معاملے میں پاکستانی میڈیا کو انتہائی سنجیدہ لیتی ہے۔

حل کیا ہے؟

پاکستان کا یہ اُصولی مؤقف ہے کہ مسئلۂ کشمیر اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جائے۔ یہ قرار دادیں، کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا حق دیتی ہیں۔ پھر یہ کہ بھارت خود عالمی اور عوامی فورمز پر کشمیریوں کو حقِ خود ارادیت دینے کی حمایت کرتا رہا ہے، سو، اب وقت آگیا ہے کہ اُنھیں اُن کا قانونی حق دیا جائے۔ ہمیں بہ حیثیت مُلک اور بہ حیثیت عوام اس تنازعے کے اُسی حل کی حمایت کرنی چاہیے، جو عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہو۔

تازہ ترین