• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پہلے کینٹین میں کام کیا، پھر سڑک پر اسٹال لگایا

عکّاسی: اسرائیل انصاری

صبح کے گیا رہ بج رہےتھے۔ کراچی کی مصروف ترین سڑک، یونی وَرسٹی روڈ پر ٹریفک رواں دواں تھا،مگر اس سے متصل سڑک پر قائم مشہور شاپنگ سینٹر اور اس کے گرد و نواح میں موجود دُکانیں بند تھیں۔ہاں البتہ کچھ جمعدار صفائی کرتے ضرورنظر آرہے تھے۔ دنیا بھر کا یہ قاعِدہ ہے کہ صبح سویرے ہی بازار وغیرہ کُھل جاتے ہیں، مگر ہمارے ہاں معاملہ اُلٹاہی ہے۔ 12 بجے سے پہلے کوئی دُکان یا بازار کُھلنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ 

خیر، ابھی ہم یہ سوچ ہی رہے تھے کہ مِن حیث القوم ہمیں اپنے بعض رویّے فی الفور تبدیل کرنےکی ضرورت ہے کہ نظر دو لڑکوں پر پڑی ، جو ایک ٹھیلے نما اسٹال سےکوَر ہٹا کراُس کی صفائی کر رہے تھے۔یہ دیکھ کر خاصی حیرت ہوئی کہ اس وقت جب یہاں سنّاٹوں کا راج ہے اور کھانے کا وقت بھی نہیں، تو یہ لوگ ابھی سےکیوں اسٹال لگا رہے ہیں۔ تھوڑی بہت معلومات کرنے پر پتا چلا کہ لبِ سڑک یہ اسٹال سلمیٰ زبیر (عرف امّاں جی)کا ہے، جسے انہوں نے ’’امّاں کے پکوان‘‘ کا نام دیا ہے۔دیگر ریسٹورنٹس، ہوٹلوں یا دُکانوں کے بر عکس یہاں 11بجے سےکام کا آغاز ہوجاتا ہے۔

پہلے کینٹین میں کام کیا، پھر سڑک پر اسٹال لگایا
نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے

ویسے آپ سچ بتائیں، پاکستانی معاشرے میں ایک خاتون کا سڑک کنارے ٹھیلا یا اسٹال لگانا حیران کُن بات لگ رہی ہے ناں…؟؟ہم بھی آپ کی طرح یہ سُن کرحیران رہ گئے۔ویسے تو اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ جب پاکستانی خواتین صحراؤں میںٹرک، کھیتوں میں ہل چلا سکتی ہیں، جنگی جہاز اُڑا سکتی ہیں، سائنسی میدان میں جھنڈے گاڑسکتی ہیں،فیکٹریوں میں محنت، مشقّت کر سکتی ہیں،تو خاندان کی کفالت کے لیے سڑک کنارے اسٹال کیوں نہیں لگا سکتیں… خیر، ہم بات کر رہے تھے’’امّاں جی‘‘کی ،جنہوں نے شوہر کی اچانک موت کے بعد خاندان کی کفیل کی حیثیت سے اِک نیا جنم لیا۔

خاوند کی وفات سے قبل وہ بھی اس معاشرے کی اکثر خواتین کی طرح ایک گھریلو خاتون تھیں، جن کی توجّہ کا محور و مرکز صرف اُن کا گھر اور بچّے ہی تھے۔ لیکن اِن ہی بچّوں کی خاطر انہوں نے گھرکی چار دیواری سے باہر کی دنیا میں قدم رکھا اور روزی روٹی کا ذریعہ بنایا اپنے ہنر، یعنی کھانا پکانے کے فن کو۔ 

امّاں جی کوئی سرٹیفائیڈ شیف نہیں، مگر جب ماں کے سامنے اس کے بھوکے ، بے سہارا بچّوں کا چہرہ ہو، توپھر وہ دنیا کی بڑی سے بڑی مصیبت کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوجاتی ہے۔ اوریہی توطرّۂ امتیاز ہے مشرقی خواتین کاکہ نازک اتنی، کانٹا چُبھے تو رونا شروع کردیں، لیکن بوقتِ ضرورت ایسی مضبوط کہ چٹان بھی اُن کے حوصلوں کے آگے کمزورپڑ جائے۔

دوپہر کے تقریباً سوا بارہ بجے تک دیکھتے ہی دیکھتے امّاں جی کے اسٹال پر گاہکوں کا تانتا بندھ گیا۔ رش دیکھ کرایسا لگ رہا تھا، جیسے کھانا مفت بٹ رہا ہو۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ زیادہ تر ٹھیلوں وغیرہ سےعموماً مزدور طبقہ یا رکشا، بس ڈرائیورز وغیرہ ہی کھانا لیتے ہیں، لیکن یہاں جو بات مختلف محسوس کی ،وہ یہ کہ بڑی بڑی ، چمچماتی گاڑیوں والے بھی کھانا پارسل کر وارہے تھے اورکچھ افراد تو فیملی سمیت کھانا کھانے آئے تھے۔ 

کسی نے سچ ہی کہا ہے ،’’ ذائقہ مسالوں میں نہیں ،ہاتھ میں ہوتا ہے۔‘‘دوسری جانب بڑی سی سفید چادر میں لِپٹی، ہونٹوں پردھیمی سی مسکان سجائے امّاں جی تمام گاہکوں کو بھی اتنی ہی ممتا سے کھانا کِھلارہی تھیں، جیسے ایک ماں کام سے تھک ہارکے لوٹے بچّوں کو کِھلاتی ہے۔ ان کے کام کے دوران ہی ہم نے ان سے بات کرنے کی کوشش کی، تو امّاں جی نے کہا ’’بیٹا ! ابھی تھوڑی دیر میں کھانا کِھلا کر فارغ ہوجاؤںگی، پھر آپ سے بات کرتی ہوں۔‘‘ جس سے ان کے پروفیشنلزم کا بھی بخوبی اندازہ ہوا۔ 

اس دَوران ہم نے وہاں موجود افراد سے بات چیت شروع کردی۔فیملی سمیت آئے گاہک، فرّخ نے بتایا کہ ’’مَیں 2 ماہ پہلے ایک دوست کے ساتھ اتفاقاً یہاں آیا تھا، امّاں جی کے ہاتھ کی کڑھی اتنی لذیذ لگی کہ اب جب بھی کڑھی کھانے کا مُوڈ ہوتا ہے، تو یہیں سے لے جاتا ہوں بلکہ اگر کبھی بیوی کا کھانا پکانے کو دل نہ چاہ رہا ہو، تو ہم یہیں آکے کھانا کھا لیتے ہیں۔ امّاں جی کے ہاتھ کے کھانے نہ صرف بہت لذیذ بلکہ سستے بھی ہوتے ہیں، تو منہگائی کے اس دَور میں ہمیں اوربھلا کیا چاہیے۔ ‘‘ ایک خاتون، حنا نے بتایا ’’مَیں اسکول ٹیچر ہوں ،یہیں قریب اسکول میں پڑھاتی ہوں۔ 

اکثر گھر لوٹتے وقت یہاں سے کھاناپارسل کروا لیتی ہوں ، کیوں کہ ورکنگ وومن ہونے کے ساتھ ساتھ گھریلو ذمّے داریاں نبھانا کوئی آسان کام نہیں، تو جب زیادہ تھکن ہویا اسکول میں دیر ہوجائے،تو دوپہر کے کھانے کے لیے یہاں سے کچھ لیتی چلی جاتی ہوں۔ امّاں جی کے کھانوں کی خاص بات یہ ہے کہ یہ روز مرّہ کے کھانے ،خالص دیسی ذائقے میں تیار ہوتے ہیں ۔‘‘ اسی اثنا سلمیٰ زبیر بھی کام سے فارغ ہو گئیں تواُن سے بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا۔ 

اپنے بارے میں بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ’’ میرا تعلق شہداد پور، ضلع سانگھڑ سے ہے۔ شادی کے بعد کراچی آگئی ۔میرے پانچ بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔مرحوم شوہر کاسمیٹکس کا کاروبار کرتے تھے،ایک روڈ حادثے میں شدید زخمی ہوگئے اور پھر ہماری ساری جمع پونجی ان کے علاج پر خرچ ہوگئی۔ان کا علاج کراچی کے بڑے نجی اسپتال میں ہو رہا تھا، پر قسمت کا لکھا کون ٹال سکتا ہے، تمام ترکوششوں کے باوجود وہ جاں بر نہ ہو سکےاور 2016ء میں انتقال کر گئے۔ 

مَیں وہ وقت کبھی فراموش نہیں کر سکتی، آج بھی سوچتی ہوں تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ایک عورت کا شوہر اور بچّے ہی تواُس کی کُل کائنات ہوتے ہیں۔جب اس کا تحفّظ، متاعِ جاں ہی چھِن جائے، توپھر زندگی تو بس بکھر کر ہی رہ جاتی ہے۔ اُس وقت میرے بچّے بھی چھوٹے تھےاور مَیں عدّت میں تھی، توپھر گھر میں فاقوں کی نوبت آگئی۔ وہ 4 ماہ10 دن میری زندگی کے مشکل ترین ، مگر سبق آموز تھے ۔ 

اپنے، پرائے سب کی پہچان ہوگئی۔بہر حال، عدّت ختم ہوئی تو گھر کے حالات کے پیشِ نظر میری ایک پڑوسن نے، جو این ای ڈی یونی وَرسٹی میں کینٹین چلاتی تھیں ،مجھے اپنے ساتھ کام پہ لگا لیا۔ پھر مجھے وہاں ایک سال کا کانٹریکٹ مل گیا، این ای ڈی میں، مَیں پیٹیس، سموسے وغیرہ فروخت کرتی تھی، جب وہاں سے کانٹریکٹ ختم ہوا تو ایک اور نجی یونی وَرسٹی کا ٹھیکہ مل گیا، پر وہ قائد آباد میں تھی،بچّوں کوگھر میں اکیلا چھوڑ کر جانا اور شام گئے واپس آنامیرے لیے بہت مشکل ہو گیا تھا۔ 

یہی سوچ رہی تھی کہ گھر کے قریب ہی کوئی کام مل جائے، تو ایک دن اچانک ایک لڑکا میرے پاس آیا اور کہا ’’امّاں جی! مَیں یہ اسٹال فروخت کر رہا ہوں، آپ چاہیں، تو لے لیں۔ ‘‘تاہم ، اس وقت میرے پاس اتنے پیسے بھی نہیں تھے کہ اسٹال خریدسکتی، تواُس موقعے پر میری میمن برادری ، واسا وڑ میمن جماعت نے ساتھ دیا اور اسٹال خریدنے میں مدد کی۔ 

اس طرح دال ، چاول فروخت کرکےمَیں نے کام کا آغاز کیا۔اور آج روزانہ تقریباً 13، 14 پکوان فروخت کرتی ہوں۔‘‘ ’’ روز مرّہ کے معمولات کیا ہیں؟‘‘ اس سوال کے جواب میں امّاں جی نے کہا ’’میرے دن کا آغاز،روز رات کے آخری پہر یعنی تہجّد کے وقت سے ہوتا ہے۔ نمازِ تہجّد اور فجر پڑھ کر کچن میں چلی جاتی ہوں اور کھانا پکانے کی تیاری شروع کر دیتی ہوں۔ سبزیاں وغیرہ کاٹنے میں بہوئیں مدد کرتی ہیں۔

ویسے تو اسٹال گیارہ، ساڑھے گیارہ بجے تک لگ جاتا ہے ،لیکن اس کی تیاری علی الصّباح شروع ہوتی ہے۔3بجے اسٹال سے فارغ ہو کر گھر جاتی ہوں اور کچن سمیٹنے کے ساتھ ساتھ اسٹال کے برتن دھوتی ہوں۔ پھر شام میں قریبی یوٹیلیٹی اسٹور سے سودا خریدنے جاتی ہوںاور یوں دن ختم ہوجاتا ہے۔ 

کوشش کرتی ہوں کہ رات کو جلدی سو جاؤں کہ پھر اُٹھ کر اگلے دن کے کھانے کی تیاری بھی کرنی ہوتی ہے۔ ‘‘’’فٹ پاتھ پر ریسٹورنٹ چلا رہی ہیں، میونسپلٹی یا پولیس والوں نے اعتراض نہیں کیا؟‘‘ہم نے پوچھا ،تو سلمیٰ زبیر نے انتہائی شفقت سے کہا ’’ نہیں نہیں بیٹا! سُنتے ہیں کہ کے ایم سی والے یا پولیس والے لوگوں کو تنگ کرتے ہیں لیکن مجھے کبھی کسی نےکوئی تکلیف نہیں دی۔ہاں وہ لوگ کھانا کھانے ضرور آتے ہیں اور گھر والوں کے لیے پارسل بھی لے جاتے ہیں، مگر ہمیشہ پیسے دے کر ہی کھاتے ہیں۔‘‘

امّاں جی کےکھانوں کی قیمت 60 روپے سے 140 روپے تک ہے، تاکہ ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد بآسانی کھاسکیں۔ ہفتے کو دفاتر اور جامعات میں حاضری کم ہونے کی وجہ سے کھانے کی مقدار کم رکھتی ہیں،جو لوگ کھانے کی قیمت ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے، وہ بھی امّاں کے دسترخوان سے خالی پیٹ نہیں جاتے۔ان کا کہنا ہے کہ ’’عدّت کے دوران جو کٹھن وقت مَیں نے اور بچّوں نےدیکھا، جو تکلیف مَیں نے محسوس کی، مَیں نہیں چاہتی کہ کوئی اوربھی اُس تکلیف سے گزرے،کوئی انسان بھوکا رہے۔ 

اس لیے غریب ، نادار افراد کو بلا معاوضہ بھی کھانا کھلاتی ہوں۔’’حفظانِ صحت کے تقاضے کیسے پورے کرتی ہیں ؟‘‘ہم نے پوچھا۔ ’’ خبروں میں دیکھتی رہتی ہوں کہ بڑے بڑے ہوٹلوں تک میں کتے، بلّی، مینڈک نہ جانے کس کس کا گوشت استعمال کیا جارہا ہے، لیکن مجھے اپنی آخرت خراب نہیں کرنی۔ مَیں روزانہ تازہ سبزی خرید کرلاتی ہوں۔ 

اور میرا بڑا بیٹا، اپنے سُسرال والوں کے ساتھ کیٹرنگ کا کام کر رہا ہے، تو وہ لوگ جہاں سے گوشت خریدتے ہیں، وہیں سے تازہ گوشت اپنے اسٹال کے لیے بھی منگواتی ہوں۔دوسری بات یہ کہ جو کھانا مَیں اسٹال پر لاتی ہوں ،وہی کھانا ہم گھر میں بھی کھاتے ہیں، یہاں لانے سے پہلے میری بہوئیں اس میں سے تھوڑا کھانا نکال لیتی ہیں۔ 

یعنی نہ ہم خود زہر کھاتے ہیں، نہ دوسروں کو کھلاتے ہیں۔ ‘‘ ’’بہ حیثیت خاتون ، سڑک پر کاروبار کرنے میں کیسی اور کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟‘‘اس سوال کا جواب دینے سے پہلے انہوں نے ایک لمحہ توقف کیا، جیسے ماضی کے جھروکوں میں گُم ہو گئی ہوں اور پھر کچھ یوں گویا ہوئیں’’مَیں تو ایک سیدھی سادی گھریلو عورت تھی، مَیں نے اس معاشرے کو ہمیشہ ہی دوسروں کی نظر سے دیکھا تھا۔ یہی سوچتی تھی کہ یہاں بھیڑیے رہتے ہیں، قدم قدم پر حوصلہ شکنی کرنے والوں کی دنیا ہے، مگر میرا وطن، یہ شہر میری سوچ کےبالکل برعکس نکلا۔ 

یہاں کے باسیوں نے میری خُوب حوصلہ افزائی کی، خُوب عزّت دی۔ ہر گاہک مجھے ’’امّاں ،امّاں ‘‘کہتا ہے، کسی عورت کے لیے اس سے بڑھ کر تعظیم اور کیا ہوگی کہ اسے’’ ماں‘‘ کہا جائے۔ سو، مجھے کبھی کسی قسم کی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا، پھر یہ بھی ہے کہ میرے بیٹےاسٹال پر میرا ہاتھ بٹاتے ہیں، کھڑے رہتے ہیں۔ اس لیے کوئی دقّت نہیں ہوتی۔‘‘ ’’ہمارے معاشرےکی عام خواتین کے کیا مسائل ہیں؟‘‘کے جواب میں انہوں نے ایک لمبی آہ بھرتے ہوئے کہا ’’مسائل تو بہت ہیں۔ آج کی عورت جتنی با اختیار، آزاد ہے،اُسے اتنے ہی چیلنجز کا بھی سامنا ہے۔ 

تاہم، میرا خیال ہے کہ ہر طبقے کی عورت کے مسائل، مشکلات اور دشواریاں الگ الگ ہیں۔ تاہم، مَیں مڈل کلاس کی بات کروں گی کہ اپنے طبقے کے مسائل سے بہ خوبی آگاہ ہوں۔ تو مَیں اپنی تمام بہنوں سے کہنا چاہتی ہوں کہ کبھی مشکل حالات کے آگے ہار مت مانیں، ڈَٹ جائیں۔کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے سے بہتر ہے کہ عزّت سے روکھی سوکھی کھائیں۔ مَیں بھی ایک گھریلو عورت تھی، لیکن مصیبتوں نے مجھے اپنے پَیروں پر چلنا سکھایا، خود مختار بنا یا۔ 

اور اللہ کا لاکھ احسان ہے کہ مَیں آج اپنے گھر کی کفالت خود کرتی ہوں، میرے بچّے تعلیم مکمل کرنے کے ساتھ میرا ہاتھ بھی بٹاتے ہیں۔ ہاں، مَیں نےچپاتیاں پکانے کے لیے ایک ایسی خاتون کو ضروررکھا ہے، جنہیں پیسوں کی ضرورت تھی۔ یوں، میرے ساتھ اللہ پاک نے دیگر لوگوں کا روزگار بھی جوڑ دیا۔ ‘‘

اگر ہم اپنے معاشرے کا مشاہدہ کریں ،تو معلوم ہوگا کہ سلمیٰ زبیر جیسی اَن گنت خواتین معاشی مشکلات، شوہر کا بوجھ بانٹنے یا خاندان کی کفالت کے لیے دن ، رات محنت کر رہی ہیں۔ویسے ایک بات تو طے ہے کہ پاکستانی عورت نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ چاہے تعلیم یافتہ ہو یا نا خواندہ ، اس کا سامنا کتنے ہی مشکل حالات، حوادث سے کیوں نہ ہو ،ضرورت پڑنے پر مَردوں کے شانہ بہ شانہ کھڑی ہوکر ان کی ذمّے داریاں بانٹ سکتی ہےاور اس کام کو انجام دینے کے لیے وہ چادر کو پَیروں کی زنجیر نہیں، اپنا تحفّظ سمجھتی ہے۔

شاید ایسی ہی خواتین کے لیے سیّد صادق حُسین نے کہا ہے کہ ؎تُو سمجھتا ہے حوادث ہیں ستانے کے لیے …یہ ہوا کرتے ہیں ظاہر آزمانے کے لیے… تندیٔ باد ِمخالف سے نہ گھبرا اے عقاب… یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اُڑانے کے لیے …کام یابی کی ہوا کرتی ہے ،ناکامی دلیل… رنج آتے ہیں تجھے راحت دلانے کے لیے… چرخ کج رفتار ہے ،پھر مائلِ جور و ستم …بجلیاں شاہد ہیں خرِمن کو جلانے کے لیے… دست و پا رکھتے ہیں اور بےکار کیوں بیٹھے رہیں …ہم اُٹھیں گے اپنی قسمت کو بنانے کے لیے۔

تازہ ترین