• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تعلیمی بجٹ 20 فیصد کرنے کے بجائے مزید کٹوتی کردی گئی

2020ء کا سورج طلوع ہوچُکا ہے، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ تحریکِ انصاف کی حکومت نےبھی، جو عام انتخابات میں ’’تبدیلی کو بنیاد، نوجوانوں کو زینہ اور تعلیم کو نصب العین‘‘ بنا کر اقتدار میں آئی تھی، شعبۂ تعلیم پر کچھ خاص توجّہ نہیں دی، لہٰذا 2019ء تعلیم کے حوالے سےگزشتہ برسوں سے قطعاً مختلف ثابت نہیں ہوا۔ تحریکِ انصاف کی حکومت اقتدار میں آئی ، تو نو منتخب وزیرِ اعظم نے پہلی ہی تقریر میں ڈھائی کروڑ بچّوں کے اسکول نہ جانے اور شعبۂ تعلیم کو ترقّی دینے کے حوالے سے بات کی تھی ۔ 

اسی خطاب میں انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ وزیرِ اعظم ہاؤس کو یو نی وَرسٹی میں تبدیل کردیا جائے گا۔وزیرِ اعظم ہاؤس یونی وَرسٹی میں کیا تبدیل ہوتا، البتہ، یونی وَرسٹی رینکنگ کے حوالے سے ایک بُری خبر ضرور سامنے آئی کہ جامعات کی نئی عالمی درجہ بندی برائے 2020ء میںدنیا کی بہترین 374یونی وَر سٹیز میں ایک بھی پاکستانی یونی وَرسٹی شامل نہیں۔ 

اسلام آباد کی پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ اپلائیڈ سائنسز، اسلام آباد(پی آئی ای اے ایس)کا 375واں اور نسٹ کا 400واں نمبر ضرورہے۔جب کہ جامعۂ کراچی 1000جامعات میں بھی شامل نہ ہوپائی ۔ ایشیائی درجہ بندی میں نسٹ کا نمبر 83واں رہا ،تو جامعۂ کراچی 239ویںنمبر کے ساتھ اس درجہ بندی میں بھی پیچھے ہی رہی۔ اقراء اور ڈاؤ یونی وَرسٹی پہلی بار اُبھر کے سامنے آئیں۔ البتہ سندھ یونی وَرسٹی کی درجہ بندی میں تنزّلی واقع ہوئی۔دوسری جانب بجٹ 2019-20 ءکی بات کی جائے، تو تعلیمی بجٹ میں بھی کٹوتی کی گئی۔

پچھلے مالی سال 2018-19ء میں وفاقی سطح پرتعلیم کے لیے 57ارب روپے مختص کیے گئے تھےاور عمران خان نے الیکشن سے قبل جہاں کئی اور دعوےکیے تھے، وہیں یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ تعلیم کے لیے قومی بجٹ کا 20 فی صد مختص کیا جائے گا۔خیر، بقول الطاف حُسین حالی ؎’’وہ وعدہ نہیں، جو وفا ہوگیا‘‘۔ 

آکسفورڈ سےفارغ التّحصیل وزیرِ اعظم سے سب اُمید لگائے بیٹھے تھے کہ شایدان کے دَور میں تعلیم و تحقیق کی اہمیت کے پیشِ نظر ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی گرانٹس میں اضافہ ہوگا، مگر اضافہ تو کیا ہوتا ،اُلٹا اس کے فنڈز میں بھی کٹوتی کر دی گئی۔ سوچنے کی بات ہے کہ آج کے اس عملی ، تحقیقی تعلیم کے دَور میں اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں سر مایہ کاری نہ کرنے کے کتنے منفی نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی فنڈنگ میں کمی پر تعلیمی، سیاسی اور سماجی حلقوں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا کہ اس سے اعلیٰ تعلیم و تحقیق کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔

مالی سال2019-20ء کے بجٹ میں ایچ ای سی کے لیے 29ارب روپے مختص کیے گئے ، جب کہ اس سے پچھلے برس اس ادارے کے لیے 46ارب روپے رکھے گئے تھے۔ایسے میں یقیناًایچ ای سی یا جامعات اس نقصان کی تلافی کے لیے فیسز میں اضافہ کریں گی، جس کا بوجھ یقینی طور پر طلبہ اور ان کے والدین پر پڑے گا۔ کئی جامعات نے تو اپنے اخراجات کے لیے بینک سے قرض بھی لیا ہے۔ 

ایک جانب تو ایچ ای سی کی مراعات یا بجٹ میں کٹوتی کی گئی ، جب کہ دوسری جانب عالمی بینک ،ایک معاہدے کے تحت پاکستان کو 91 کروڑ 80 لاکھ ڈالر زقرض دے گا، جس میں سے 40 کروڑ ڈالر زاعلیٰ تعلیم کی مَد میں خرچ ہوں گے۔ملکی معیشت کے اسٹریٹیجک شعبوںمیں ریسرچ کے معیار کو بڑھایا جائے گا اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کی ڈی سینٹرلائزیشن بھی بڑھے گی۔

بات کی جائے سی ایس ایس کے امتحان کی ، تو2019ء میں اس میں کام یاب ہونے والے امیدواروں کی شرح محض2.56فی صد رہی، واضح رہے کہ تحریری امتحان کے لیے 23ہزار 403 امیدواروں نے درخواستیں جمع کروائی تھیں، جن میں سے 14 ہزار 521 امیدواروں نے ٹیسٹ دیا اور صرف 372 امیدوار ہی کام یاب ہو سکے۔ جہاں اس نتیجے سے امیدواروں کی علمیت، ذہانت و قابلیت پر کئی سوالات اُٹھے، وہیں تعلیمی اداروں کے معیار پر بھی کئی سوال اُٹھ رہے ہیں۔

2019ء ،شعبۂ طب کے حوالے سے انتہائی اہمیت کے حامل ادارے، پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کاؤنسل کے لیے بھی سیاہ سال ثابت ہوا کہ حکومت نے طبّی شعبے کے نگراں ادارے کو تحلیل کر کے ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے اسے ایک نئے ادارے میں تبدیل کر دیا ۔پاکستان میڈیکل کمیشن آرڈیننس 2019ء کے عنوان سے جاری ہونے والے اس آرڈیننس میں ،جہاں اس نئے ادارے کے خدّوخال واضح کیے گئے ہیں، وہیں اس کے ذریعے ایک نیا امتحان بھی متعارف کروایا گیا ، جسے پاس کرنا ، نہ صرف پریکٹس کے لیے، بلکہ ہاؤس جاب کے لیے بھی لازمی ہوگا۔

اس امتحان کو نیشنل لائسنسنگ ایگزام (این ایل ای) کا نام دیا گیا ہے اور اس کا اطلاق مارچ 2020 ء کے بعد گریجویشن کرنے والے میڈیکل کے تمام طلبہ پر ہوگا۔یعنی مارچ 2020ء میں گریجویشن کرنے والے طلبہ کو ہاؤس جاب شروع کرنے کے لیے ایک عارضی لائسنس درکار ہوگا ، جسے این ایل ای پاس کرکے ہی حاصل کیا جا سکے گا، جب کہ ہاؤس جاب کی تکمیل کے بعد ہی انہیں پورا لائسنس جاری کیا جائے گا۔

پاکستان میں این ایل ای کے مجوّزہ امتحان کے خلاف سوشل میڈیا پر خُوب ہنگامہ برپا ہوا، جس میں میڈیکل کے طلبہ نے اس معاملے پر اپنے سخت تحفّظات کا اظہار کیا۔دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ امتحان سال میں صرف دو مرتبہ منعقد کیا جائے گا۔اس آرڈیننس کا اصل فائدہ طبّی اداروں کو ہوگا کہ وہ زیادہ تعداد میں طلبہ بھرتی کرسکیں گے، جب کہ پہلے پی ایم ڈی سی کی جانب سے ایک حد مقرّر تھی۔بعض حلقوں کی جانب سے اس آرڈیننس پر تنقید کرتے ہوئے کہا گیا کہ اس سے بہت بہتر تھا کہ پرانے ڈاکٹر زکی رجسٹریشن کی تجدید کرنے سے قبل یہ ٹیسٹ لیا جاتا ،تاکہ وہ موجودہ زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو پاتے۔

پچھلے کئی برسوں سے نجی اسکولز زیادہ فیسز لینے کے حوالے سے خبروں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔سالِ گزشتہ بھی یہی خبریں گرم رہیں۔ سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں اسکول فیسز میں اضافے سے متعلق کیس کی سماعت کی ، جس میں 2017ء کے بعد فیس میں ہوئے اضافے کو کالعدم قرار دیا گیا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ ’’نجی اسکولز 2017ء والی فیس وصول کرنے کے مجاز ہیں، لہٰذا والدین سے لی گئی اضافی فیسز آئندہ فیسزمیں ایڈجسٹ کی جائیں۔‘‘اب نجی اسکول مالکان عدالت کے حکم کی کیسے تعمیل کرتے ہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا۔

یوں تو مُلکِ عزیز میں والدین اور طلبہ پورا سال ہی کسی نے کسی وجہ سے پریشانی کا شکار رہتےہیں، لیکن ان کی پریشانی میں اس وقت مزید اضافہ ہوگیا، جب رواں سال او/ اے لیولز کا ٹائم ٹیبل جاری ہوا ، تو کچھ پیپرز عین عید کے دن شیڈولڈ تھے۔ پاکستان میں برٹش کاؤنسل ،او اور اے لیول کےامتحانات کے انعقاد کروانے کا ذمّے دارادارہ ہے۔ تاہم محکمۂ تعلیم اور حکومتی اداروں کے برٹش کاؤنسل اور کیمبرج یونی وَرسٹی سے رابطے کے فقدان کے باعث یہ صورتِ حال پیدا ہوئی اور طلبہ عید کےتینوں دن تہوار منانے کی بجائے امتحان دینے میں مصروف رہے۔

اب تک کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں شرحِ خواندگی 62.3فی صد ہے۔ صوبوں کی بات کی جائے، تو پنجاب میں یہ شرح 64.7فی صد،سندھ میں 62.2فی صد،خیبر پختون خوا میں 55.3فی صد اور بلوچستان میں 55.5 فی صد ہے۔ عمومی طور پر دیکھا جائے، تو گزشتہ چند برسوں میں شرحِ خواندگی میں بہتری آئی ہے، دیہی علاقوں میں بھی لڑکیوں کی تعلیم پر زور دیا جانے لگا ہے، لیکن اقوامِ عالم یا پڑوسی ممالک سے مقابلہ کیا جائے ، تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں نظامِ تعلیم سخت ابتری کا شکار ہے۔

پاکستان تعلیم پر جی ڈی پی کا محض 2.14فی صد خرچ کرتا ہے، جو جنوبی ایشیا میں سب سے کم ہے۔چوں کہ اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد اب شعبۂ تعلیم ہر صوبے کی اپنی ذمّے داری ہے، تو جائزہ لیتے ہیں کہ گزشتہ برس پاکستان کے چاروں صوبوں میں تعلیم کی صورتِ حال کیا رہی۔ 

صوبۂ پنجاب میں 23 کھرب 57 کروڑ مالیت کے حجم کا بجٹ پیش کیا گیا، جس میں شعبۂ تعلیم کے لیے 383ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ۔صوبے میں چھے یونی وَرسٹیز (مَری، چکوال، میاں والی، بھکّر، پنڈی اورننکانہ صاحب میں) کا قیام عمل میں لائے جانے اور مالی سال کے دوران تقریباً 63 کالجز کی تکمیل کا فیصلہ کیا گیا، تو 68 کالجز میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے لیے 1 ارب 76 کروڑ روپے مختص کیے گئے۔

صوبۂ سندھ میں 12 کھرب 89 کروڑ 79 لاکھ مالیت کے حجم کا بجٹ پیش کیا گیا، جس میں178.618 ارب روپے اسکول ایجوکیشن کے لیے مختص کیےگئے ،جوسابقہ سالوںکی نسبت آٹھ ارب روپےزیادہ تھے۔ ترقّیاتی بجٹ میں بھی تعلیم کے لیے 15.15 ارب روپے مختص کیے گیے اورقوم کا یہ پیسا اگر حقیقی طور پر شعبۂ تعلیم ہی پر خرچ ہوا، تو واقعی صوبے کی شرحِ خواندگی بڑھانے میں خاصی مدد مل سکتی ہے۔ 

ایک حالیہ رپورٹ میں انکشاف ہواہے کہ جامعۂ کراچی کے تحت نئے تعلیمی سیشن 2020ءکے لیے منعقدہ داخلہ ٹیسٹ میں اندرونِ سندھ کے تعلیمی بورڈزسے ’’اے ون‘‘گریڈ میں انٹرمیڈیٹ کاامتحان پاس کرنے والے71.29فی صد امیدوارفیل ہوگئے۔اے ون گریڈز لینے والے محض 28.71 فیصد طلبہ ہی انٹری ٹیسٹ پاس کر سکے۔

اعدادوشمارکے مطابق جامعۂ کراچی میں بی ایس کے داخلوں کے لیے منعقدہ ٹیسٹ میں مجموعی طورپر پورے پاکستان سے 10119امیدوار شریک ہوئے تھے، جن میں جس میں سے 40.15 فی صدنے داخلہ ٹیسٹ پاس کیا،یعنی 4063طلبہ پاس اور6056فیل ہوئے اوران میں کراچی تعلیمی بورڈ سے انٹر کرنے والے طلبہ کی تعداد 7101تھی ۔تعلیمی کار کر دگی کے علاوہ 2019ء میں صوبۂ سندھ، بی بی آصفہ ڈینٹل کالج، لاڑکانہ میں ہاسٹل کےکمرے میں مُردہ پائی جانے والی طالبہ نمرتا کُماری کے حوالے سے بھی خبروں کی زَدمیں رہا۔ 

خیال رہے کہ 16 ستمبر کو نمرتا کی لاش کالج ہاسٹل میں ان کے کمرے سے ملی تھی، جس پر کہا گیا تھا کہ طالبہ نے خودکُشی کی ہے، جب کہ ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بھی موت کی وجہ خودکُشی قرار دی گئی ۔ اس کیس نے اس لیے بھی زیادہ توجّہ حاصل کی کہ نمرتا کا تعلق اقلیتی برادری سے تھا۔

خیبر پختون خوا میں900 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا گیا، جس میںاعلیٰ و ثانوی تعلیم کے لیے 190 ارب روپےرکھے گئے،اعلیٰ تعلیم کےلیےبجٹ میں 40 فی صد اضافہ کیا گیا، جب کہ نجی تعلیمی اداروںپر ٹیکس بڑھا یا گیا۔ یہ بھی اعلان کیا گیا کہ صوبے میں 12 ہزار اساتذہ بھرتی ہوں گے۔ مردان میں ویمن کیڈٹ کالج کے لیےبجٹ میں50کروڑ روپے رکھے گئے، جب کہ10کروڑ روپے کی لاگت سے بونیر میں ماربل سٹی کے قیام کا فیصلہ ہوا۔صوبے کی بنیادی مراکزِ صحت،ا سکولوں اور4ہزار مساجد کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کا بھی فیصلہ ہوا۔ 

جن کے لیے ایک ارب 20 کروڑ روپے مختص کیے گئے۔تحریکِ انصاف کی، کے پی کے میں حکومت کے گزشتہ برسوں کا جائزہ لیں، تومعلوم ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے اپنے پہلے سال 2013ءمیں تعلیمی ایمرجینسی نافذ کی تھی اورتعلیم کے شعبے کے لیے منصوبہ2015-20ءبھی تیار کیا تھا۔ تاہم، آبادی کے تناسب سے اسکولوں کی کم تعداد، خدمات اور سہولتوں کی فراہمی میں صنفی اور علاقائی عدم توازن اور سرکاری اسکولوں کی نجی اسکولوں کے مقابلے میں بہتر کارکردگی جیسے مسئلے اب بھی توجّہ اور مزید وسائل کے منتظر ہیں۔

رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے، بلوچستان میں بجٹ کا کُل حجم 4 سو 19 ارب سے زائد رکھا گیا ، جس میں سے تعلیم کے لیے 55 ارب 72 کروڑ ، جب کہ ہائیر ایجوکیشن کے لیے 14 ارب 95 کروڑ مختص کیے گئے۔ واضح ر ہے کہ بلوچستان میں تقریباً 20فی صد طلبہ نجی اسکولز میں پڑھتے ہیں، یعنی تقریباً 80 فی صد سرکاری تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم ہیں، لہٰذا صوبے کے لیے سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت بہتر، اساتذہ کی حاضری یقینی بنانا اور ان کی استعداد ِکار میں اضافہ لازم ہے۔ دوسری جانب 2019ء میں بلوچستان یونی وَرسٹی میں ہونے والا ہراسانی کا واقعہ بھی زبانِ زدِ عام رہا۔صوبے کی سب سے بڑی یونی وَرسٹی میں طالبات کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا ایک بڑا اسکینڈل بے نقاب ہوا ۔

جامعۂ بلوچستان کے شعبہ ’’سرویلینس اور سیکیورٹی برانچ‘‘ کے بعض اہل کار یونی وَرسٹی کے سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج کو اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرتے رہے ۔یہ کیمرے طالبات کے واش رومزاورہاسٹل رومز میں لگائے گئے تھے۔ عدالت کے حکم پر وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے جامعہ کے مختلف شعبوں میں چھاپے مارے، جہاں سےبڑے پیمانے پر طالبات کی ویڈیوز برآمد کی گئیں۔ ایک ایسے صوبے کے تعلیمی ادارے سے، جہاں پہلے ہی خواتین کی تعلیم پر زیادہ توجّہ نہیں دی جاتی،اس قسم کے واقعات سامنےآنے کے بعد صوبے میں تعلیم کیسے فروغ پائے گی، خود اپنی جگہ ایک لمحۂ فکریہ ہے۔

سال 2019ء کے اختتام پرپاکستان میں طلبہ یونینز کی بحالی کے ضمن میںبھی ایک بھر پور کوشش کی گئی، جب 29نومبر 2019ء کو سُرخ جھنڈے اٹھائے چند نوجوان، مزدور اور مختلف این جی اوز کے تن خواہ دار افراد ’’انقلاب، انقلاب اور ایشیا سُرخ ہے‘‘ کے نعرے لگاتے اسلام آباد، لاہور، کراچی، پشاور، وغیرہ میں طلبہ یونین کی بحالی کےلیےنکل آئے۔ 

جن کی آواز پھرمحض سڑکوں ہی تک محدود نہ رہی، بلکہ حکومتی ایوانوں تک بھی جا پہنچی۔ اس کے بعدبلاول بھٹو زرداری اور کر فواد چوہدری سے لے کر وزیرِ اعظم عمران خان تک سب ہی نے طلبہ یونینز کی بحالی کی بات کی، تو اب اُمید کی جا رہی ہے کہ شاید 2020ء طلبہ یونین کی بحالی کا سال ثابت ہو۔

تازہ ترین