• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’مگر ماما مَیں گھر نہیں بیٹھ سکتی۔ آپ نے تو مجھے باہمّت، حوصلہ مند بنایا ہے،آپ کی بیٹی نڈر ہے، ڈر پوک نہیں۔ تو کیا ہوا اگر شہر میں مہلک وبا پھیلی ہوئی ہے…مَیں گھر نہیں بیٹھ سکتی۔ مَیں نے دن رات ایک کرکے ایم بی بی ایس کی ڈگری اس لیے تو حاصل نہیں کی تھی کہ صرف ڈاکٹر کا لیبل اپنے نام کے ساتھ لگا کر گھوموں اورضرورت پڑنے پر پیٹھ دِکھا کر بھاگ جاؤں۔ہم ڈاکٹرز، مریضوں کا علاج کرنے کا حلف لیتے ہیں۔ مَیں کیسے اس سے رُوگردانی کر سکتی ہوں؟ روزِ آخرت اللہ کو کیا منہ دِکھاؤں گی…؟؟‘‘ عائشہ اپنی ماں کو قائل کرتے کرتے جیسے رو دی۔

عائشہ اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی تھی۔ دو سال پہلے ہی میڈیکل کالج سےپاس آؤٹ ہوئی تھی اورآج کل ایک سرکاری اسپتال میں بہ طور جونیئر ڈاکٹر پریکٹس کر رہی تھی۔ ’’بیٹا! مَیں تمہاری نیّت پر شک نہیں کر رہی، مجھے پتا ہے تم ایک بہت ایمان دار اور مخلص ڈاکٹر ہو، مگر اپنی ماں کی پریشانی بھی تو سمجھو ۔ مَیں کس دل سے تمہیں اسپتال جانے دیتی ہوں، تم اندازہ ہی نہیں لگا سکتیں۔ ‘‘’’ماما! آپ ہی کی تو خواہش تھی کہ مَیں ڈاکٹر بنوں، آپ ہی نے تو بچپن میں یہ خواب میری پلکوں پر سجایاتھا، ہر امتحان، ہر مشکل گھڑی میں ایک مضبوط چٹان کی مانند میرے ساتھ کھڑی رہیں، تو پھر آج میری ماں کم زور کیوں پڑ رہی ہے؟ آج تو آپ کی عائشہ کو اپنی ماما کی دعاؤں، اُن کے ساتھ کی اور بھی زیادہ ضرورت ہے۔‘‘عائشہ نے روتے روتے اپنی ماں کے ہاتھ تھام لیے، تو ماما نے نہ چاہتے ہوئے بھی ہتھیار ڈال دئیے۔

’’میرےچاروں طرف لوگ ہی لوگ ہیں،ڈرےسہمے، موت سے خوف زدہ، بیمار لوگ ۔ پچھلے پندرہ دِنوں سے میری ڈیوٹی جس وارڈ میں ہے، اب اُسےصرف کورونا پازیٹیو مریضوں ہی کے لیے مختص کر دیا گیا ہے۔ تمہارے نانا، نانی مجھے ٹیچر بنانا چاہتے تھے ، لیکن مَیں نے لڑ جھگڑ کر، ضد کرکے اس شعبے کا انتخاب کیا۔ حالاں کہ میڈیکل کی پڑھائی کسی طور آسان نہیں ہوتی، خون کے آنسو رُلا دیتی ہے، پھر الیکٹیوز ہاؤس جاب اور اسپیشلائزیشن کی شکل میں کئی اورامتحان بھی راہ تک رہے ہوتے ہیں۔یہ سب جانتے بوجھتے بھی مَیں نے اپنے لیےمسیحائی کے شعبے کا انتخاب کیا۔ کئی کئی گھنٹوں کی ڈیوٹی دی، راتوںکی نیندیں وار دیں، نائٹ ڈیوٹی کے دوران مریضوں کے اہلِ خانہ کی ناراضی، سخت رویّے بھی ہنس کر بر داشت کیے کہ مَیں جانتی ہوں، جس راہ کا مَیں نے انتخاب کیا ہے، وہ آسان نہیں۔ 

ہمیں اسٹریس میں کام کرنے کی تربیت دی جاتی ہے، ڈر، خوف گھبراہٹ کو پسِ پشت ڈال کر ایمر جینسی میں بھی پُر سکون رہنا، پریشانی کے آثار چہرے سے عیاں نہ ہونے دینا ہماری جاب کا حصّہ ہےکہ اگر ڈاکٹرز ہی پریشان ہوجائیں گے، گھبراجائیںگےتو مریضوں کا کیا ہوگا۔مَیں نے بھی اپنے چھے، سات سالہ کیریئر میں ہمیشہ ہی انتہائی پروفیشنلزم کا مظاہرہ کیا اور آئندہ بھی کرتی رہوں گی۔ اس مشکل صورتِ حال میں بھی مَیں نے،ڈاکٹر ارم نے ہمّت نہیں ہاری، یہ جانتے ہوئے بھی کہ مَیں ہائی رِسک پر ہوں، جاں فشانی سے ڈیوٹی انجام دے رہی ہوں،مریضوں کی ہمّت بندھا رہی ہوں، لیکن…حیا!!’’تمہاری ماں ‘‘ہار گئی ہے، میری ممتا کم زور پڑ رہی ہے، ہمّت جواب دے رہی ہے۔ 

میری گڑیا!ویڈیو کال میں تمہارا روتا ، سُرخ چہرہ، وائس نوٹ میں تمہاری سِسکیاں، تتلاتی زبان میں ’’ماماپاس جانا ہے‘‘ کہنا مجھ سے برداشت نہیں ہوتا، میری روح کانپ جاتی ہے۔ میری بچّی یہ مت سمجھنا کہ ماما تم سے پیار نہیں کرتیں، میرا دل کرتا ہےتمہیں اپنی آغوش میں سمیٹ لوں۔ تم نہیں جانتیں کہ مَیں اپنی حیاکو گود میں لینے، سینے سے لگانے کے لیے کس قدر تڑپ رہی ہوں، پر فی الحال مَیں گھر نہیں آسکتی۔ مَیں نہیں چاہتی کہ میری وجہ سےتمہیں یا گھر والوں کو خدا نخواستہ کوئی آنچ بھی آئے۔

مجھے اللہ تعالیٰ سے پوری اُمید ہے کہ یہ کٹھن وقت اِن شاء اللہ جلد گزر جائے گااور تم بڑی ہو کر فخر سے سب کو بتاؤگی کہ میری ماما نے ایک ماں ہی کی طرح مشکل وقت میں اپنے مریضوں کا خیال رکھا، انہیں زندگی کی طرف واپس لائیں، ان کا علاج کیا۔ مجھ سے تودُور رہیں، لیکن کئی ماؤں کی گود اُجڑنےاور بچّوں سے ان کا سائباں چِھننے سے بچایا۔مجھے نہیں پتا کہ جب تم یہ خط پڑھنے کے قابل ہوگی، تو مَیں اس دنیا میں ہوںگی یا نہیں۔مجھے نہیں معلوم کہ مَیں اس محاذ سے زندہ واپس آؤں گی یا نہیں۔ پر میری گڑیا، مجھے یہ یقین ہے کہ تم میری پر چھائیں ہو، تم بھی اپنی ماں ہی کی طرح مسیحائی کے اس نوبل پروفیشن کا انتخاب کرکے ، ماں کے نقشِ قدم پر چلو گی۔‘‘

زیرِ نظر سطریں کسی ایک ’’ڈاکٹر عائشہ یاڈاکٹر ارم ‘‘ کے دلی جذبات نہیں،ہر لیڈی ڈاکٹر کے گھر کی کہانی ہے۔جب سے ہمارے مُلک میں کورونا وائرس کا پہلا کیس سامنے آیاہے، تب ہی سے تمام اسپتالوں میں ایمرجینسی کی سی صورتِ حال ہے۔ کچھ شہری تو آج بھی اس وباکو ایک مذاق، لاک ڈاؤن کو سزا سمجھ رہے ہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی کورونا کیسز میں روز بہ روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی عوام انتہائی ’’دلیر‘‘ ہیں، طوفان آنے کا الرٹ جاری ہو تو سمندر پر پہنچ جاتےہیں، سورج گرہن ہو تو آفتاب کی آنکھوں میں آنکھیں ملاکے کھڑےہو جاتے ہیںاور مہلک وباپھیلےتو اُسے ہنسی میں اُڑا دیتے ہیںکہ یہ رویّہ توہمارا قومی مزاج بن چُکا ہے۔ 

جب تک اپنے اوپر کوئی قیامت نہ ٹوٹے، تب تک ہم بے پروا ہی رہتے ہیں۔ جب سے مُلک بھر میں لاک ڈاؤن ہوا ہے، تب سے ہر روز نہ جانے کتنی ہی میمز سامنے آرہی ہیں، کوئی ٹائلز گِن کر بوریت دُور بھگا رہا ہے، کسی کو اسٹریٹ فوڈ یاد آرہا ہے، کوئی شاپنگ کے لیے ترس رہا ہے، کوئی گھر رہ رہ کر تنگ آگیا ہے، لیکن کیا ہم میں سے کسی نے فقط ایک لمحے ہی کے لیے یہ سوچا کہ کتنی مائیں، اس سنگین صورتِ حال میں بھی خود موت کے منہ میں جاتی ہیں، کتنی مائیں دعائیں پڑھ پڑھ کر اپنی اولاد کو گھر سے اسپتال کے لیے رخصت کرتی ہیں۔

سلام ہے اُن تمام ماؤں کو ، جو اس قیامت خیز گھڑی میں، کورونا نامی عفریت کے سامنے سیسہ پلائی دیوار ثابت ہو رہی ہیں اور سلام ہے اُن تمام ماؤں کو ، جو میڈیکل فیلڈ سے وابستہ اپنے بچّوں کو روز مُسکراتے چہروں کے ساتھ رخصت کرتی ہیں۔ ہم تو لاک ڈاؤن کے دن مزے سے لوڈو، کیرم کھیلتے، والدین، بہن بھائیوں کے ساتھ مِل جُل کر گزاررہے ہیں۔ساتھ ہی بوریت اور بے زای کا اظہار کرتے بھی نہیں تھکتے، لیکن ذرا پوچھیں تو اُن لیڈی ڈاکٹرز اور نرسز ماؤں سے کہ در اصل تکلیف ہوتی کیا ہے،جو تیس، تیس گھنٹے ڈیوٹی کر رہی ہیں، اپنے بچّوں کو سینے سے نہیں لگا پا رہیں، گود میں نہیں اُٹھا پارہیں، ان کے لیے کھانا نہیں پکا پا رہیں۔

ذرا سوچیے! جن ڈاکٹرز کو ہم قسائی سے تشبیہہ دیتے تھے، وہی آج فرنٹ لائن پر کھڑے ہیں، وہ نرسز جنہیں ہم کبھی کسی خاطر میں نہیں لائے، وہی ہمارے پیاروں کی تیمار داری میں مصروف ہیں۔ گھر بیٹھی ماؤں کو تو یہ شکوہ ہے ناں کہ بچّے تنگ کر رہے ہیں، بار بار کھانا مانگ رہے ہیں، لیکن اسپتال میں ڈیوٹی انجام دیتی ماؤں کے دل کا حال کون سمجھے گا، جنہیں یہ بھی خبر نہیں کہ کل گھر جا کروہ اپنے بچّوں کی شرارتیں دیکھ بھی سکیں گی یا نہیں، ان کے لیے کھانا پکا سکیں گی یا…

وہ ماں بھی ہے، ’’مسیحا‘‘ بھی ٹھہری
ڈاکٹر سیمی جمالی

ہر سال مئی کا دوسرا اتوار ’’ماؤں کےعالمی دن‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ سو،ہم آج کا یہ دن اُن تمام عظیم اوربہادر ماؤں کے نام کر رہے ہیں، جو ہر روزاپنے دل پر پتھّر رکھ کر ، دعاؤں کے حصار میں اپنےبچّوں کو خلقِ خدا کی مدد کے لیے بھیجتی ہیںاور اُن ماؤں کے نام کر رہے ہیں، جو اپنی ،اپنے بچّوں اوراہلِ خانہ کی پروا کیےبغیر مریضوں کا علاج، ان کی دیکھ بھال کر رہی ہیں۔ اس موقعے پر ہم نے کچھ ڈاکٹرز، نرسز ماؤں سے بات چیت بھی کی، جس میں اُن سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ ’’لاک ڈاؤن میں اسپتال جانے، بچّوں سے دُور رہنےپر وہ کیا محسوس کرتی ہیں؟‘‘ جناح پوسٹ گریجویٹ اسپتال ،کراچی کی ترجمان ڈاکٹر سیمی جمالی کی بیک وقت بہادری اور بے بسی ان کے لہجے سے صاف جھلک رہی تھی انہوں نے بات کا آغاز کچھ یوں کیا کہ ’’مجھ سے بہتر اس درد کو اور کون سمجھ سکتا ہےکہ مَیں تو وہ ماں ہوں، جس کا ایک بیٹا کینیڈا میں پھنسا ہوا ہے، تو دوسرا میرے ساتھ ہو کر بھی پاس نہیں۔ 

کورونا وائرس نے تو جیسے زندگی ہی بدل دی ہے۔ میرا بیٹا امتحان دینے بیرونِ مُلک گیا تھااور اب لاک ڈاؤن کی وجہ سے وہیں پھنس گیا ہے،جب کہ دوسرا بیٹا نظروں کےتو سامنے ہے، مگر مَیں اُسے گلے نہیں لگا سکتی، اپنے پاس نہیں بٹھا سکتی کہ مَیں تو دن بھر مریضوں میں گِھری رہتی ہوں، تو یہ خوف دامن گیر رہتا ہے کہ وہ انفیکٹڈ نہ ہوجائے۔ میرے بچّے ہر وقت میرے خیالوں میں بَسےرہتے ہیں۔ 

وہ ماں بھی ہے، ’’مسیحا‘‘ بھی ٹھہری
ڈاکٹر طاہرہ صادق

رات کو جب سونے لیٹتی ہوں ، تو دن بھر کی تمام باتیں ذہن میں گردش کر تی ہیں،پھر سوچتی ہوں کہ مجھے تو بہر حال ہمّت کرنی ہو گی۔ اسی دن کے لیے تو مَیں ڈاکٹر بنی تھی، انسانیت کی خدمت کاحلف اُٹھایا تھا، مریضوں کی دیکھ بھال ہی تو ہماری پرائمری ڈیوٹی ہے۔ ہمارا سامنا ایک اَن دیکھےدشمن سے ہے، ایک چھوٹے سے ذرّے سے، جس نے پوری دنیا کی بقا داؤ پر لگا دی ہےاور ہمیں اپنے لوگوں کو اس دشمن سےبچانا ہے۔‘‘ پاکستان ائیر فورس اسپتال، اسلام آباد میں کارڈیالوجسٹ، اسکواڈرن لیڈر، ڈاکٹر طاہرہ صادق کا کہنا ہے کہ ’’ جب سے یہ وبا پھیلی ہے، ہم ایک دن بھی چھٹّی نہیں کر رہے۔ او پی ڈی کے ساتھ ہفتے میں ایک دن آن کال ڈیوٹی ہوتی ہے، موبائل فون 24 گھنٹے آن رہتا ہے کہ کبھی بھی ایمر جینسی کال آسکتی ہے۔ 

وہ ماں بھی ہے، ’’مسیحا‘‘ بھی ٹھہری
ڈاکٹر مبینہ آگبوٹ

خود سے زیادہ بچّوں کی فکر رہتی ہے کہ ہماری وجہ سے وہ وائرس سے متاثر نہ ہو جائیں۔ حالاں کہ ہم پی پی ایز کا استعمال کرتے ہیں، لیکن پھر بھی دل میں ایک دھڑکا سا رہتا ہے۔ جب گھر پہنچتی ہوں، تو بچّوں کو گود میں نہیں اُٹھاتی، سب سے پہلے شاوَر لیتی ہوں، کپڑے دھوتی ہوں، پھر کہیں جا کر بچّوں کی طرف دیکھتی ہوں۔

یہ بہت کڑا وقت ہے، خاص طور پر مجھ جیسی ماؤں کے لیے۔‘‘سندھ گورنمنٹ اسپتال کے شعبہ امراضِ اطفال کی سربراہ ، ڈاکٹر مبینہ آگبوٹ والا کا کہنا ہے کہ ’’میرے دو چھوٹے بچّے ہیں۔ اسپتال جاتے اور واپس آتے ہوئے دل کتنی پریشانی اور گھبراہٹ کا شکار ہوتا ہے ،یہ نا قابلِ بیان ہے، کیوں کہ ہمیں نہیں پتا کہ آنے والا کون سامریض کوروناسے متاثر ہے ، مگر ہم ڈر کے گھر تو نہیں بیٹھ سکتے ۔ 

وہ ماں بھی ہے، ’’مسیحا‘‘ بھی ٹھہری
ڈاکٹر رمشہ اویس

ڈاکٹرز کا تو کام ہی لوگوں کی جان بچانا ہےاور ہم اسی حلف کے ساتھ اس پروفیشن میں قدم رکھتے ہیں، تو وقت چاہے جتنا بھی کڑا کیوں نہ ہو، ہم ہر حال میں اس مقدّس پیشے کی عظمت کی لاج رکھیں گے ۔‘‘ این آئی سی ایچ ، کراچی میں تعیّنات، پوسٹ گریجویٹ ٹرینی ، ڈاکٹر رمشہ اویس نے کچھ اس طرح اپنے جذبات کا اظہار کیا کہ ’’ مجھے ڈیوٹی پر جاتے ہوئے ڈر نہیں لگتا، واپس آتے ہوئے لگتا ہے کہ میری ڈیڑھ سالہ بیٹی مجھے دیکھتے ہی گود میں آنے کی ضد کرے گی۔ پھر وہ چاہے روئے، چیخے چلّائےکچھ بھی کرے، لیکن مَیں جب تک خود کو ، اپنے لباس کو ڈِس انفیکٹ نہ کرلوں، تب تک اُسے ہاتھ نہیں لگاتی۔

آج کل میں 30سے36گھنٹے ڈیوٹی کر رہی ہوں، چھوٹی سی بچّی کو گھر میں چھوڑ کر کام کرنا، کسی اذّیت سے کم نہیں، لیکن اللہ کا شکر ہے کہ میری فیملی بہت سپورٹیو ہےتو بچّی اورگھر کی طرف سے ٹینشن فری ہو کر ڈیوٹی پر جاتی ہوں، لیکن واپس آتے ہوئے دل و دماغ میںکئی طرح کے خدشات ہوتے ہیں کہ کہیں میری وجہ سے خدا نخواستہ گھر میں کسی کو انفیکشن نہ ہو جائے، کوئی بزرگ بیمار نہ ہوجائے۔ایسا لگتا ہے جیسے ہم کوئی جنگ لڑ رہے ہیں۔ گھر والے ڈرتے ہیں کہ کہیں مَیں متاثرنہ ہو جاؤں، لیکن یہ وقت بھاگنے کا نہیں، مقابلہ کرنے کا ہے۔ ‘‘ کراچی کے ایک نجی اسپتال میں کورونا مریضوں کے وارڈمیں ڈیوٹی انجام دینے والی ایک ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ ’’یہ بہت چیلنجنگ وقت ہے۔ کئی دن ہوگئے، مَیں اپنی ماں،فیملی سے نہیں ملی کہ کہیں خدا نخواستہ میری وجہ سے وہ متاثر نہ ہو جائیں۔ 

گوکہ ہم احتیاطی تدابیر اپناتے ہوئے ہی کام کر رہے ہیں، لیکن پھر بھی ہماری اپنی زندگیاں تک داؤ پر لگی ہیں۔ اس پر ظلم یہ ہے کہ لوگ لاک ڈاؤن کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔ میرے سامنےروزانہ کی بنیاد پر 3سے 4نئے کیسز آرہے ہیںاور یہ ایک الارمنگ صورتِ حال ہے۔ کورونا وائرس کوئی مذاق نہیں، حقیقت ہےاور اس حوالے سے عوام کو سنجیدہ ہوجا نا چاہیے۔دوسری جانب سُنا ہے کہ معاشی بحران کی وجہ سےکچھ اسپتالوں میں ڈاکٹرز کی تنخواہیں بھی کاٹی جا رہی ہیں،یہ توسخت نا انصافی ہے۔ ہمیں اسپتال پہنچنے میں اتنی مشکلات پیش آرہی ہیں، جگہ جگہ رکاوٹیں ہیں، اسپتال کا آئی ڈی کارڈ دکھانے کے با وجود پولیس اہل کار کہتے ہیں کہ شناختی کارڈ دکھائیں، جب ایک شخص اسپتال کا کارڈ دکھا رہا ہے، تو پھر کسی شک کی کوئی گنجایش رہ جاتی ہے کیا۔ بہر حال، مَیں سب سے یہی کہوں گی کہ خدارا!زیادہ سے زیادہ گھروں میں رہیں، ان حالات میں احتیاط انتہائی ضروری ہے، ورنہ اسپتالوں میں جگہ ختم ہوجائے گی اور ہم چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکیں گے۔‘‘

پیرا میڈکس، نرسز اسٹاف کا دایاں بازوہوتا ہے۔ اُن کے بغیر ہیلتھ کیئر سسٹم مکمل ہی نہیں ہوتا۔ تو اس حوالے سے سوِل اسپتال، کراچی میں بطور سپر وائزراسٹاف نرس ڈیوٹی پر ماموررخسانہ بیگم کا کہنا ہے کہ ’’مجھے اپنے پروفیشن پر فخر ہے، مَیں ان حالات سے خوف زدہ نہیںکہ مجھے تو اللہ پاک نے دوسروں کی مدد ہی کے لیے چُناہے۔ گوکہ میرےکام، اوقاتِ کارمیں خاصااضافہ ہوگیا ہے، لیکن یہی تو وقت ہے نیکیاں کمانے کا، اپنے پیشے سےاخلاص دکھانے کا۔ ہاں، مجھے اپنے بچّوں کی فکر بہت ستاتی ہے کہ میری وجہ سے کہیں وہ بیمار نہ ہو جا ئیں ، لیکن میں تمام تر احتیاطی تدابیر بھی اپنا رہی ہوں۔ جیسے یونی فار م اسپتال میںاتار کر، نہا دھوکر گھر جاتی ہوں اور جوتے بھی گھر نہیں لے جاتی، باہر ہی اتار دیتی ہوں۔ 

اللہ نے چاہا ،تو جلد یہ مصیبت کی گھڑی ٹل جائے گی۔‘‘ ایسے ہی جذبات سے سر شار ایک ماں، مسز قمر ہیں، جن کی بیٹی ،ڈاکٹر حبا ضیاء الدّین اسپتال میں خدمات انجام دیتی ہیں۔ ’’جب ڈاکٹر بیٹی اسپتال جا تی ہے، تو ماں کے دل پر کیا گزرتی ہے، کیسے خدشات دل کو گھیر لیتے ہیں؟‘‘ ہم نے پوچھا تو مسز قمر نے بڑے جذباتی انداز میں جواب دیا ’’یہ کسی ڈراؤنے خواب کی سی صُورت ہے۔ لیکن مجھے فخر ہے کہ میری بیٹی اور اس جیسے باقی تمام ڈاکٹرز اپنا کام ایمان داری سے کررہے ہیں۔یہ بچّے گھبرا نہیں رہے، بلکہ ہم جیسی ماؤں کی ہمّت بندھا رہے ہیں، ان لوگوں کی جتنی تعریف، جتنی پذیرائی کی جائے کم ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ ڈاکٹرز علاج کرنے کے پیسے لیتے ہیں، مَیں کہتی ہوں اپنی جان خطرے میں ڈال کر یہ جو کام کررہے ہیں اس کا موازنہ مال و دولت سے ہر گز نہیں کیا جا سکتا۔یہ تو وہ وقت ہے کہ جب سگے بھائی ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے سے کترا رہے ہیں، اس گھڑی یہ بچّے کورونا متاثرین کی نگہداشت، اُن کا علاج کررہے ہیں، تو اس سے بڑھ کر کارِ خیر کیا ہوسکتا ہے۔ 

وہ ماں بھی ہے، ’’مسیحا‘‘ بھی ٹھہری
مسز شکیلہ عزیزی

مجھے ڈر تو لگتا ہے کہ کہیں میری بچّی کو متاثر نہ ہوجائے، لیکن پھر اُسے اپنی دعاؤں کے حصار میںلے لیتی ہوںکہ ایک ماں کے بس میں تو بس یہی ہے۔‘‘ ان ہی جیسی ایک اور ماں مسز شکیلہ شمیم عزیزی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ’’مَیں اپنی بیٹی پر جتنا بھی فخر کروں، کم ہے، جو 24 گھنٹے ایک محاذ پر کھڑی ہے۔ مَیں یہ محسوس کرنا چاہتی ہوں کہ مَیں اُس کے ساتھ ہوں،مَیںاُسے اکیلا نہیں چھوڑنا چاہتی، لیکن میری بچّی جیسے اور بھی لاتعداد بچّے ہیں، جو یہ جنگ لڑ ر ہے ہیں۔ایک لمحہ خیال آیا کہ اُسے روک لوں، کہوں کہ چھٹّی لے لو، مگر نہیں کہہ سکی کہ وہ کیا سوچے گی کہ میری امّاں نے صرف اپنی اولاد کے بارے میں سوچا، دوسروں کے بارے میں نہیں۔ 

بس اُسی لمحے اپنے ربّ کے حضور سجدہ ریز ہو گئی اور تمام بچّوں کی سلامتی کے لیے خُوب دُعا ئیں کیں کہ یہ سلامت ہیں، تو ہم سب خود کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ مَیں تمام ماؤں سے کہتی ہوں کہ ڈریں ، نہ گھبرائیں، فرنٹ لائن پر موجود اپنے بچّوں پرسر اُٹھا کے فخر کریں۔مَیں اپنے ربّ ِکریم کے حضورگڑ گڑا کےدُعا گو ہوں کہ میری بچّی جیسے ہزاروں بچّے، جو مسیحائی کے منصب پر فائز ہیں،انہیں اپنی حفظ و امان میں رکھےاور انہیں اور اُن کی ماؤں کو سُرخ رُو کردے۔ آمین۔‘‘

’’ماں پلیز گھر لوٹ آئیں‘‘

’ ’ماں میں گھر پر ہوں اور مجھے آپ کی یاد بہت آ رہی ہے، مَیں آپ کے گلے لگنا چاہتی ہوں، ہمیں آپ کی ضرورت ہے۔ پلیز،جلدی گھر آجائیں۔ اُمید ہے آپ نے رات کا کھانا کھا لیا ہوگا ، مجھے پتا ہے کہ آپ با ہمّت ہیں،ہار نہیں مانیں گی۔‘‘ماں کا جواب تھا ’’ ڈیئر منولی! مَیںجلد گھر لوٹ آؤں گی۔‘‘ یہ بات چیت امریکا میں مقیم بھارت سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر مادھوی اور اُن کی بیٹی کی ہے ۔ بیٹی سے جلد گھر آنے کا وعدہ کرنے والی بے بس ماں جا ن چُکی تھی کہ اس کا عہد وفا نہ ہو پائے گا، لیکن اس کی اداسی دُور کرنے کے لیے اسپتال کے بیڈ پر لیٹے لیٹے جھوٹا وعدہ کر بیٹھی۔

وہ ماں بھی ہے، ’’مسیحا‘‘ بھی ٹھہری
ڈاکٹر مادھوی

ڈاکٹر مادھوی کئی برس سے امریکا میں مقیم تھیں۔ وہ ووڈ ہل میڈیکل سینٹر، بروکلین میں بطور فزیشنز اسسٹنٹ(Physician's assistant)فرائض انجام دے رہی تھیں۔ اسپتال کی ایمرجینسی میں کام کرتے کرتےوہ کب انفیکٹڈ ہو گئیں ،پتا ہی نہیں چلا ۔ اور اب وہ اپنے خاوند اور 18 سالہ بیٹی سے دُور ایک اسپتال کے بیڈ پر تنہا لیٹی تھیں، مگر وہ میسجز کے ذریعےمسلسل اپنے خاندان سے رابطے میں تھیں۔ جوں جوں بیماری بڑھتی گئی، مادھوی کے فیملی کو بھیجے جانے والے میسجز مختصر اور کم ہوتے گئے۔

وہ ایک انتہائی مخلص ڈاکٹر، مگر بہت بے بس ماں تھیں، جنہوں نے مشکل وقت میں اپنے مریضوں کوتو تنہا نہیں چھوڑا،لیکن اپنا گھر، اپنی بچّی کو اکیلا چھوڑ گئیں۔ موت سے زیادہ تکلیف تو ڈاکٹر مادھوی کو تب ہوئی ہوگی، جب وہ زندگی کی آخری سانسیں لے رہی تھیں اور اُس وقت کوئی اُن کااپنااُن کے ساتھ، اُن کے پاس نہ تھا۔

ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا…

عریمہ نسرین، وسطی برطانیہ کے وال سل نامی ایک قصبےمیں قائم ’’وال سل مینر اسپتال ‘‘ میں بطورنرس فرائض سر انجام دے رہی تھیں۔ اُن کے والدین نے برسوں قبل، میرپور آزاد کشمیر سے برمنگھم، برطانیہ ہجرت کی تھی۔کم سِن عریمہ نے بچپن ہی میں نرس بننے کاخواب پلکوں پر سجا لیا تھا۔ اسی خواب کی تکمیل کے لیے انہوں نے شادی اور بچّوںکے بعد بھی تعلیمی سلسلہ منقطع نہیں ہونے دیا اور گزشتہ برس با قاعدہ ایک کوالی فائیڈ نرس بن گئیں۔وہ تین بچّوں کی ماں بھی تھیں۔

وہ ماں بھی ہے، ’’مسیحا‘‘ بھی ٹھہری
عریمہ نسرین

 کووڈ 19کے پھیلاؤ کے بعد عریمہ سمیت کئی نرسز کی ڈیوٹی وائرس میں مبتلا مریضوں کے وارڈ میں لگا دی گئی۔ مگر افسوس کہ مریضوں کی خدمت کرتے کرتے عریمہ خودبھی کورونا وائرس کا شکار ہو گئیں، جس نے تیزی سے ان کے پھیپھڑوں پر حملہ کیا اوروہ جاں بر نہ ہوسکیں۔ یوں ایک ماں خلقِ خدا کی خدمت کرتے کرتے اپنے بچّوں کو روتا چھوڑ کر ابدی نیند سو گئی۔

عریمہ نسرین کے ایثار اور قربانی کو سراہتے ہوئے برطانوی وزیرِ صحت، میٹ ہنوک نےکہاکہ ’’عریمہ ایک دلیر ہیلتھ ورکر تھیں۔ تمام تر خطرات کے باوجود انہوں نے کبھی مریضوں کی تیمارداری سے منہ نہیں موڑا اور اپنی جان دے کر فرض شناسی کی اعلیٰ ترین مثال قائم کی ہے۔‘‘

’’میرا وینٹی لیٹر نوجوان کو دے دو‘‘

مارچ کے وسط میں بیلجیئم کے ایک قصبے،بنکوم کی رہائشی ، نوّے سالہ سوزین ہو لیئرس کو ایک مقامی اسپتال میں داخل کروایا گیا۔وہ کورونا پوزیٹیو تھیں۔ دنیا بھر کی طرح بیلجیئم میں بھی مریضوں کی تعداد بڑھنے کے باعث وینٹی لیٹرز کی شدید کمی ہے۔ ان حالات میں جب سوزین کو سانس لینے میں شدید دشواری ہوئی، تو ڈاکٹرز سخت تشویش میں مبتلا ہو گئے کہ اب سوزین کے لیے وینٹی لیٹر کا انتظام کہاں سے ہوگا، وہ کافی پریشان تھے۔ اسی اثنا بزرگ خاتون نے ایک ڈاکٹر کو بلا کر کہا کہ ’’بیٹا! مجھے وینٹی لیٹر کا سہارادینے کی ضرورت نہیں ہے۔ 

وہ ماں بھی ہے، ’’مسیحا‘‘ بھی ٹھہری
سوزین ہو لیئرس

مَیں تو اپنی زندگی بھر پور انداز میں جی چُکی ہوں۔ ہاں، اگر میرے لیے وینٹی لیٹر کا بندوبست ہوجائے، تو وہ کسی نوجوان لڑکے، لڑکی کو لگا دیناکہ وہ سب بھی میرے ہی بچّے ہیں۔‘‘ یہ سُن کر ڈاکٹر نے نم دیدہ آنکھوں سے انہیں تسلّی دی اورچلا گیا۔اگلے دن بزرگ خاتون چل بسیں۔ ان کی بیٹی نے بتایا کہ ’’میری ماں بہت نرم دل ، ہم درد خاتون تھیں۔دوسروں کی مددکے جذبے سے سرشار، اپنے پیاروں کی تمنائیں مقدّم رکھنے والی، اُن کی زندگی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔‘‘

تازہ ترین