• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کوئی صدمے کا شکار ہے کوئی حیرت میں مبتلا ہے ۔ افغان طالبان نے تصدیق کر دی ہے کہ نوشکی میں امریکہ کے ڈرون حملے کا شکار بننے والا شخص ولی محمد دراصل ملا اختر منصور تھا ۔امریکہ اور طالبان دونوں نے ملا اختر منصور کی پاکستان میں موت کی تصدیق کر دی لیکن پاکستانی ارباب اختیار بدھ کی دوپہر تک نوشکی میں ڈرون حملے پر امریکہ سے احتجاج میں مصروف تھے اور ولی محمد نامی شخص کی اصلیت کے بارے میں خاموش رہے ۔ یہ حیرت نہیں بلکہ افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے ارباب اختیار سب کچھ جانتے ہوئے بھی اپنی قوم کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے رہے اور جھوٹ بول کر رعونت آمیز طریقے سے قومی مفاد کے تحفظ کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اسامہ بن لادن کے بعد ملا اختر منصور کی پاکستان میں موت کے بعد دنیا بھر میں پاکستانیوں سے طرح طرح کے سوالات پوچھے جا رہے ہیں جن کا ہمارے پاس کوئی تسلی بخش جواب نہیں۔ بار بار دہلی والوں کو پاکستانیوں پر طنزیہ انداز میں ہنسنے کا موقع دیا جاتا ہے اور جب کوئی یہ پوچھ بیٹھے کہ ہمارے خفیہ اداروں کو اسامہ بن لادن اور ملا اختر منصور کی پاکستان میں موجودگی کا پتہ کیوں نہیں چلتا تو سوال پوچھنے والا بھارت کا ایجنٹ قرار دیدیا جاتا ہے ۔
مجھ سے کئی اہل وطن نے بڑے معصومانہ انداز میں پوچھا کہ ملا اختر منصور جس ٹیکسی میں سفر کر رہے تھے وہ مکمل طور پر تباہ ہو گئی اور پوری دنیا نے اس کے ملبے کو آگ میں جلتے دیکھا لیکن ملا صاحب کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کیسے محفوظ رہا؟ان دستاویزات پر ملا صاحب کی تصویر اصلی لیکن نام اور پتہ جعلی تھا ۔کچھ لوگوں نے یہ بھی پوچھا کہ افغان طالبان کے امیر المومنین جعلی پاسپورٹ بنوانے میں کیسے کامیاب ہوئے ؟اس جعلسازی کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟وہ دانشور جو طالبان کو فرقہ پرست دہشت گردوں کا ایک جنونی گروہ قرار دیا کرتے تھے انہیں یقین نہیں آتا کہ طالبان کے امیر المومنین کا ایران بھی آنا جانا تھا ۔یہ بالکل درست ہے کہ جب طالبان تحریک شروع ہوئی تو ایران نے طالبان کی شدید مخالفت کی اور شمالی اتحاد کا ساتھ دیا تھا لیکن جب گیارہ ستمبر 2001ء کے بعد پاکستان نے اپنی پالیسی تبدیل کی تو افغان طالبان نے بھی پالیسی بدل دی ۔ پاکستان کے ارباب اختیار کو بہت جلد اندازہ ہو گیا کہ انہوں نے اپنی پالیسی بدل کر افغانستان میں پاکستان کے دشمنوں کو قدم جمانے کا موقع دیدیا ہے۔ پرویز مشرف کے دور میں افغان طالبان کی مذمت بھی کی جاتی تھی اور انہیں استعمال کرنے کی کوشش بھی کی جاتی تھی لیکن ملا عبدالسلام ضعیف کی کتاب منظر عام پر آنے کے بعد پاکستانی ارباب اختیار کو اپنی بے وقوفانہ چالاکیوں اور رعونت آمیز حب الوطنی پر نظرثانی کرنے کی ضرورت تھی۔ ملاعبدالسلام ضعیف نے پاکستان سے اپنی گرفتاری سے لیکر بگرام اور گوانتا ناموبے میں قیدوبند کی جو داستان تحریر کی اس میں واضح کر دیا کہ افغان طالبان اب پاکستان کے ارباب اختیار کو قابل اعتبار نہیں سمجھتے۔طالبان نے خطے میں نئے اتحادی تلاش کرنے شروع کر دیئے تھے ۔طالبان اور ایران میں روابط کا سلسلہ ملا عمر کی زندگی میں شروع ہو گیا تھا لیکن پاکستان کے ارباب اختیار افغان طالبان کی قیادت کو روایتی ملائوں کا ایک گروہ سمجھتے رہے جسے کبھی لالچ اور کبھی دھونس و دھمکی کے ذریعہ دبانے کی کوشش کی گئی۔یہ ملا صاحبان اپنی مجبوریوں کی وجہ سے آپ کو یہ تاثر دیتے رہے کہ وہ آپ کے ساتھ ہیں لیکن انہوں نے ایران کے علاوہ کچھ دیگر ممالک سے بھی تعلقات قائم کرلئے ۔آپ ملا اور مولوی کو حقیر و بے توقیر سمجھتے رہے لیکن یہ ملا، مولوی اور مولانا صاحبان کافی ہوشیار نکلے۔ ان سب نے داعش کے مقابلے کیلئے ایران کے ساتھ ایک غیر اعلانیہ اتحاد قائم کر لیا ہم نے ملااور مولوی کے اصلی معانی سمجھنے کی کوشش نہ کی بس یہی سمجھا گیا کہ جس طرح پنجاب کے دیہاتی علاقوں میں ملا اور مولوی کو جاگیردار طبقہ حقیر و فقیر سمجھتا ہے تو افغانستان کے مولوی بھی ایسے ہی ہونگے ۔ ملا کا لفظ افغانستان میں احترام کیلئے استعمال ہوتا ہے کیونکہ ملا اور مولوی عربی لفظ مولاسے نکلا ہے جس کے معنی حاکم کے ہیں ۔افغانستان میں یہ لفظ کسی بزرگ یا دینی شخصیت کیلئے استعمال ہوتا ہے لیکن پاکستان میں اور خاص طور پر پنجاب میں مذہبی امور میں دلچسپی لینے والے باریش لوگوں کیلئے ملا یا مولوی کا لفظ طعنے اور طنز کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے اس فرق کو سمجھنے کیلئے تحریک پاکستان کے دو بنگالی رہنمائوں مولوی ابو القاسم فضل الحق اور مولوی تمیز الدین کی مثالیں موجود ہیں ۔دونوں مذہبی رہنما نہیں تھے لیکن دونوں کو ان کے علم و فضل کی وجہ سے مولوی سمجھا جاتا تھا۔عرض یہ کرنا ہے کہ ملا اختر منصور کے ایران سے روابط میں ہمارے ارباب اختیار کیلئے بڑے سبق پنہاں ہیں ۔افغان طالبان اپنی بقاء کیلئے ایران کی طرف دیکھ سکتے ہیں تو آپ کیوں نہیں ؟ آپ اپنی رعونت آمیز حب الوطنی کے نشے میں سرشار رہے اور بھارت نے ایران وافغانستان کو اپنا اتحادی بنالیا۔امریکہ نے ہمیشہ پاکستان پر افغان طالبان کی سرپرستی کا الزام لگایا لیکن طالبان اور ایران کے تعلقات پر امریکہ خاموش رہا ۔امریکہ چاہتا تو ملا اختر منصور کو ایران میں بھی نشانہ بنا سکتا تھا لیکن ملا صاحب کے پاکستان میں داخل ہونے کا انتظار کیا گیا ۔پاسپورٹ کے مطابق ملا صاحب مارچ میں ایران گئے اور مئی میں پاکستان واپس آئے ۔دو ماہ تک وہ ایران میں کیا کرتے رہے ؟بعض اطلاعات کے مطابق انہوں نے ایران میں کچھ روسی اہلکاروں کے ساتھ بھی ملاقاتیں کیں تاکہ افغانستان میں امریکی اثرورسوخ کو روکنے کیلئے روس کی مدد حاصل بھی کی جاسکے ۔ یہ سوال بھی بہت اہم ہے کہ افغان صدر اشرف غنی کو افغان طالبان کی پاکستان میں موجودگی پر بڑا اعتراض رہا ہے لیکن انہوں نے افغان طالبان اور ایران کے خفیہ روابط پر خاموشی کیوں اختیار کر رکھی ہے ؟امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل یہ دعویٰ کر چکا ہے کہ افغان طالبان نے ایران کے شہر مشہد میں ایک دفتر کھول رکھا ہے اور ایران کی طرف سے بعض طالبان کمانڈروں کو ساڑھے پانچ سو ڈالر ماہانہ تنخواہ ادا کی جا رہی ہے ۔اشرف غنی ان اطلاعات پر خاموش کیوں ہیں ؟
افغان طالبان نے ملا اختر منصور کو افغانستان میں دفن کرنے کے بعد ملا ہیبت اللہ کو اپنا نیا سربراہ مقرر کر دیا ہے ۔ہیبت اللہ کی پالیسی وہی ہو گی جو ملا منصور اختر کی تھی ۔افغان طالبان فوری طور پر واشنگٹن اور کابل کے نمائندوں کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع نہیں کریں گے ۔افغان طالبان پر پاکستان کا اثر مزید کم ہو جائے گا۔اس سارے کھیل میں پاکستان کو بدنامی کے سوا کچھ نہیں مل رہا ۔افغان طالبان میں بعض عناصر کا خیال ہے کہ پاکستان نے ملا اختر منصور کی موت میں کوئی نہ کوئی کردار ضرور ادا کیا ہے کیونکہ ملا صاحب پاکستان کے دبائو کے باوجود مذاکرات کی میز پر بیٹھنے سے گریز کر رہے تھے ۔ پاکستان کا دفتر خارجہ اور فوجی قیادت نوشکی میں ڈرون حملے کی مذمت کرکے یہ تاثر دے رہی ہے کہ اسے اس حملے کی کوئی خبر نہ تھی ۔سچ تو یہ ہے کہ پاکستان کے ارباب اختیار پر باہر کی دنیا بھی شک کر رہی ہے اور اپنے لوگ بھی شک کر رہے ہیں ۔اپنے لوگ تو یہی جاننا چاہتے ہیں کہ پہلے اسامہ بن لادن اور اب ملا اختر منصور پاکستان میں اتنی آسانی سے کیسے چھپ جاتے ہیں ؟ دونوں کی موت قبائلی علاقوں میں نہیں پاکستان کے شہری علاقوں میں ہوئی دونوں کو امریکہ نے پاکستان میں گھس کر مارا ۔ دونوں مرتبہ ہم نے احتجاج تو بہت کیا لیکن کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہوئی۔ ہمارے ارباب اختیار کب تک اپنے ہم وطنوں کو دھوکہ دیتے رہیں گے؟ ہمیں کب تک دنیا کے سامنے مذاق بنایا جاتا رہے گا ؟
تازہ ترین