• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سہانی یادوں کا لامتناہی سلسلہ حد نظر سے پرے تک پھیلا ہوا ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کس کا ذکر کروں اور کس سے نگاہیں چرا لوں۔ جنوری کی سردی میں دوپہر کی پیلی دھوپ جسم و جاں کو تسکین فراہم کرتی اور آنکھوں کو حسین لگتی ہے۔ یہ جنوری 1987 کا ذکر ہے کہ صدر ضیا الحق سرکاری دورے پر لاہور میں اترے ہوئے تھے اور ان کے اعزاز میں گورنر پنجاب کی جانب سے لنچ کا اہتمام کیاگیا تھا۔ گورنرہائوس لاہور کے سرسبز و شاداب اور وسیع و عریض لان میں گلابوں کی کیاریوں کےدرمیان کھانے کی میز لگائی اور سجائی گئی تھیں جن پر رنگا رنگ چھتریاں بارات کا سماں پیش کر رہی تھیں۔ اس لنچ میں پنجاب کی تقریباً سبھی اہم شخصیات کو مدعو کیا گیا تھا جن میں سیاستدان بھی تھے، صنعتکار اور تاجر بھی..... مین ٹیبل پر صدر صاحب، گورنر پنجاب جناب مخدوم سجاد حسین قریشی، وزیراعلیٰ پنجاب میاں نوازشریف تشریف فرما تھے۔ مین ٹیبل کی ساتھ والی ٹیبل پر میں اور حکومت ِ پنجاب کے چند اور سینئر افسران بیٹھے تھے۔ مین ٹیبل پر خدمت کے لئے بیرے موجود تھے جبکہ باقی حضرات کو قطاروں میں لگ کر خود کھانا لینا تھا۔ میں پلیٹ اٹھائے اپنی باری کا انتظار کررہا تھا کہ ملٹری سیکرٹری آیا اور اس نے مجھے کہا کہ گورنر صاحب کہہ رہے ہیں آپ مین ٹیبل پر ’’تشریف‘‘ لے آئیں۔ وہاں پہنچا تو میاں صاحب نے مسکرا کر استقبال کیا، صدر صاحب نے خیر خیریت پوچھی اورمیاں صاحب نے اپنے ساتھ والی خالی کرسی پر بٹھا لیا۔ میں نے ابھی پلائو کے چند لقمے کھائے ہی تھے کہ وزیراعلیٰ صاحب نے مجھے اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے پوچھا ’’ڈاکٹر صاحب! یہ نوجوان جوپلیٹ میں کھانا ڈال رہا ہے، یہ کون ہے؟‘‘ میں نے میز کی طرف مڑ کر دیکھا تو ایک گورا نیلگوں آنکھوں والاخوبرو نوجوان نظر آیا۔ میں نے جواب دیا کہ میں ان صاحب سے شناسا نہیں لیکن میں آپ کو یہ بتا سکتا ہوں کہ آپ اس کے بارے میں کیوں پوچھ رہےہیں؟ وزیراعلیٰ صاحب مسکرائے اور کہاکہ آپ کا کیا اندازہ ہے؟ ایک سیکنڈ کے وقفے کے بعد میں نے کہا کہ ’’اب آپ کے تجسس کی اصلی وجہ بتائوں‘‘ وزیراعلیٰ نہایت خوشگوار موڈ میں تھے۔ شرارتی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا ’’بتایئے‘‘ میں نےکہا ’’سر! آپ کا خیال ہے کہ وہ کشمیری ہے‘‘ وزیراعلیٰ صاحب مسکرائے اور کہا کہ ’’اسے کہئے مجھ سے ملے‘‘ میں اس نوجوان سے ملنے گیا تو پتہ چلا کہ وہ فیصل آباد کے ایک صنعتکار خاندان سے ہے۔ میں نے اسے میاں صاحب کا پیغام دیا تووہ اٹھ کر مین ٹیبل کی طرف چل دیا۔ بدقسمتی سے من حیث القوم ہم برادری ازم کا شکارہیں۔ برادری ازم کا تعصب انتخابات میں بھی اہم کردار سرانجام دیتا ہے اور جمہوریت کی ر اہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔انہی دنوں وہ واقعہ ہوا جس کا اخبارات میں چرچارہا۔ کرکٹر سرفراز نواز نے میاں صاحب کے خلاف پریس کانفرنس کردی۔ چند دنوں بعد وہ ماڈل ٹائون سے شہر کی جانب آ رہا تھا تو چند لٹھ بردار نوجوانوں نے اس کی گاڑی روک لی اور اس کی ڈنڈوں لاٹھیوں سے خوب مرمت کی۔ سرفراز نواز نے اس تواضع کے خلاف پریس کانفرنس کی اور بتایا کہ حملہ آور مجھے مارتے ہوئے کہتے جاتے تھے کہ تم کشمیری ہو کر ایک کشمیری وزیراعلیٰ کی مخالفت کرتے ہو۔ مجھے اس سے صدمہ ہوا اور میں نے وزیراعلیٰ صاحب سے پوچھا تو انہوں نے صاف کہہ دیا کہ مجھے کچھ علم نہیں۔ میں سمجھ گیا کہ یہ کسی بادشاہ سے زیادہ بادشاہ کے وفادارکا کارنامہ ہے کیونکہ اقتدار میں ایسے پیشہ ور خدمتگاروں کی بہتات ہوتی ہے۔ کچھ دنوں بعد میں وزیراعلیٰ صاحب کے ساتھ ان کی کار میں جارہا تھاتو وزیراعلیٰ ہائوس کے قریب فٹ پاتھ پر حاجی مقصود بٹ نظر آئے جو ان دنوں تاجروں کی ایک انجمن کے صدر پائے جاتے تھے۔ وزیراعلیٰ صاحب کی رگِ ظرافت پھڑکی اورمجھ سے پوچھا ’’ڈاکٹر صاحب! یہ حاجی مقصود بٹ بھی آپ کے شاگرد تھے؟‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ’’حاجی صاحب تو استادوں کے استاد ہیں۔ وفاداری کا رعب جمانےکے لئے آپ کے مخالفین پر ڈنڈے برسا رہے ہیں لیکن آپ انہیں گھاس ڈالنے کے لئے تیار نہیں۔‘‘ چند دنوں بعد نیم خواندہ حاجی مقصود بٹ وزیراعلیٰ پنجاب کے معاون خصوصی بنا دیئے گئے۔ وہ جو خدمات سرانجام دیتے تھے وہ کوئی عالم و فاضل شخص سرانجام نہیں دے سکتا تھا۔ اسی رو میں بہتے ہوئے سہیل ضیا بٹ کی یاد آ رہی ہے۔ اس کا ذکر پھر کبھی۔ دوستو! اسے کہتے ہیں عملی سیاست۔کتابی اور اخباری سیاست کچھ اور ہوتی ہے اور عملی سیاست کچھ اور..... رفیق غوری سرپھرا ہے۔ اسی دور میں اس نے سینیٹ کی رکنیت کے لئے درخواست دے دی۔ وزیراعلیٰ چاہتے تھے کہ مسلم لیگ کے امیدوار بلا مقابلہ ہوں۔ حاجی مقصود بٹ اپنی ڈنڈا بردار فوج لے کر غوری کے گھرپہنچ گئے اور اسے دستبرداری پہ مجبور کردیا۔
ماضی میں جھانکتا ہوں تو چند ایک یادیں متاثر کرتی ہیں۔ میاں صاحب میں غریبوں کی خدمت کا جذبہ بے پایاں دیکھا۔ جب بھی کسی بیوہ، یتیم یا نادار شخص کی مدد کے لئے سمری بھجوائی وہ فوراً منظورہوئی۔ انہی کی دعائیں ہمیشہ میاں صاحب کے ساتھ رہیں۔ ایک اور مشاہدے نے بھی مجھے متاثرکیا۔ چند ایک بار ایسا ہوا کہ وزیراعلیٰ کی سرکاری میٹنگوں کا سلسلہ صبح آٹھ بجے شروع ہوا اور دوپہر ایک بجے تک جاری رہا۔ میں ان میٹنگوں میں موجود رہا۔ ایک ڈیڑھ بجے آخری میٹنگ ختم ہوئی تو میاں صاحب باغ جناح کے کرکٹ کلب میں کرکٹ کھیلنے چلے گئے۔ وہاں پہنچتے ہی میاں صاحب نے پہلے نماز ظہر ادا کی۔ حیرت کی بات تھی کہ میاں صاحب صبح سات ساڑھے سات بجے سے دوپہر ڈیڑھ بجےتک باوضو تھے۔ تیسری یاد بھی متاثر کن تھی۔ انہیں غصہ نہیں آتا تھاآتا بھی تو اظہار نہ کرتے صرف چہرے کا رنگ سرخ ہو جاتا۔ اپنے آپ پر یہ کنٹرول حیرت انگیز تھا۔ میں وہ منظرنہیں بھولا کہ محترمہ بینظیر بھٹو پہلی بار وزیراعظم منتخب ہوچکی تھیں۔ میاں صاحب اور پی پی پی کے درمیان محاذ آرائی عروج پر تھی۔ ہم نئے گورنر جنرل ٹکا خان کی تقریب حلف برداری سے نکلے تو پی پی پی کی جیالیوں اور جیالوں نے وزیراعلیٰ کے اردگردگھیرا تنگ کردیا۔ نعرے بازی شروع کردی کہ’’ راج کرے گی بینظیر‘‘ اور پھر جیالیاں میاں صاحب کی آنکھوں پر انگلیوں سے حملہ آور ہونے لگیں۔ میاں صاحب نہایت تحمل سے نکلے اور کسی بھی ردعمل کا اظہار کئے بغیر رخصت ہوگئے۔
کالم طول پکڑ رہا ہے بس ایک واقعہ کاذکر کرکے اجازت لیتاہوں۔ 1990کے وسط کی بات ہے کہ میاں صاحب عمرہ کرکے وطن واپس لوٹے۔ شاید ماہ ِ رمضان تھا۔ رات کو ان کا فون آیا کہ میں آپ کےگھر آ رہا ہوں۔مجھے وزیراعظم بینظیر بھٹو نے ان دنوں او ایس ڈی بنا رکھا تھا۔ میاں صاحب خاموشی سے غریب خانے پر آئے تومیرے پاس بزرگ دوست ڈاکٹر نذیر قریشی تشریف فرما تھے۔گزشتہ کالم میں، میں نے عرض کیا تھا کہ ڈاکٹر نذیرقریشی بہت پرانے ایم بی بی ایس تھے اور بیڈن روڈ پر پریکٹس کرتے تھے۔ وہ اکثر ایسی بات کہہ دیتے جومن و عن پوری ہو جاتی۔ میاں صاحب سے میں نے ڈاکٹرصاحب کا بحیثیت بزرگ دوست تعارف کروایا تو میاں صاحب نے جھٹ سے پوچھا ’’ڈاکٹرصاحب! بینظیر کب جائےگی؟‘‘ ڈاکٹرصاحب نے جواب دیا ’’چلی جائے گی ذرا انتظار کریں‘‘ صورتحال کو بھانپتے ہوئے ڈاکٹر قریشی صاحب فوراً رخصت ہوگئے۔ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ صد ر اسحاق خان نے میاں صاحب کو اعتماد میں لے کر بینظیر کی رخصتی کی تاریخ بتا دی تھی جسے ہم سے خفیہ رکھا گیا تھا۔ اس روز میاں صاحب میرے پاس کوئی گھنٹہ بھر ٹھہرے۔ کچھ اہم امور پرمشورے کرتے رہے۔ اگلے دن ڈاکٹر قریشی صاحب سے ملاقات ہوئی وہ چھوٹتے ہی کہنے لگے ’’ڈاکٹر صاحب! آپ کا دوست وزیراعظم تو بن جائے گا لیکن انجام اچھا نہیں ہوگا‘‘ میں نے اسی روز یہ بات دو دوستوں سے شیئر کی جن میں سے اظہر محمود تو لاہور میں ہیں، دوسرے سعید صاحب لندن میں۔
چند ماہ بعد میاں صاحب وزیراعظم بنے اور پھر غلام اسحاق خان کی تلوار کانشانہ بن گئے۔ میاں صاحب دوسری بار وزیراعظم بنے تو ان کےآرمی چیف جنرل مشرف نے 12اکتوبر 1999 کو ان کا تختہ ا لٹنے کے بعد پابند سلاسل کردیا اور پھرطویل جلاوطنی بھگتنا پڑی۔ 13اکتوبر 1999 کو میں نے ان دونوں دوستوں کو فون کرکے پوچھا کہ کیا تمہیں ڈاکٹر قریشی صاحب کی پیشنگوئی یاد ہے۔
انہیں حرف بحرف یاد تھی لیکن ڈاکٹر قریشی صاحب 1990 کے اواخر میں انتقال پاچکے تھے۔ اب میاں صاحب تیسری بار وزیراعظم بنے ہیں۔ اللہ انہیں قائم و دائم رکھے لیکن ان کےاقتدار کا انجام کیا ہوگا صرف اللہ پاک جانتے ہیں۔ غیب کا علم صرف اللہ پاک کی ملکیت ہے لیکن میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ اللہ پاک اپنے پیاروں کو جب قرب عطا فرماتے ہیں تو علم کے سمندر میں سے قصرہ آدھ قطرہ بطور انعام عطا فرما دیتے ہیں۔ میں نے بہت سے ایسے اللہ والے دیکھے جن کے منہ سے نکلی ہوئی بات یا اشارۃً دیا گیا پیغام پتھر پہ لکیر ثابت ہوا۔ جو لوگ اس سے انکار کرتے ہیں وہ معصوم ہیں کہ انہیں یہ تجربہ ہی نہیں ہوا۔ باقی پھر کبھی، لیکن یاد رکھیں کہ یہ محض یادیں نہیں، یہ ہماری تاریخ ہے۔
تازہ ترین