• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسلامیہ کالج لاہور کا ہال طلبا سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، حاضرین میں کئی قد آور شخصیات موجود تھیں جن میں مولانا غلام رسول مہر ، شیخ عبد القادر ، مولانا ظفر علی خان، پطرس بخاری ، ڈاکٹر محمد دین تاثیر، مولانا عبد المجید سالک، چراغ حسن حسرت ، وکلا اور عمائدین شہر شامل تھے ۔ یہ سب لوگ علامہ محمد اقبال کا لیکچر سننے کے لئے یہاں جمع ہوئے تھے ۔مدراس میں لیکچر دینے کے بعد اقبال کے خطبات کی اس سیریز کا اہتمام خاص طور سے لاہور کے لئے کیا گیا تھا، ہر خطبہ تین سے چار گھنٹے تک طویل ہوتا جس کی زبان بھی کافی پیچیدہ ہوتی اور اسی لئے بہت کم لوگوں کو سمجھ آتی ۔ پہلے خطبے کی صدارت انجمن حمایت اسلام کے سر عبد القادر نے کی جبکہ مولانا ظفر علی خان اور پطرس بخاری کو نوٹس لینے کے لئے کہا گیا تاکہ وہ بعد میں حاضرین کو سلیس زبان میں خطبے کا مفہوم سمجھا سکیں ۔ جب خطبہ ختم ہوا تو مولانا ظفر علی خان مائیک پر تشریف لائے اور کہا ’’یہ خطبہ میرے ناقص فہم سے بہت بلند تھا ، لہٰذا اس کے ترجمے سے معذرت چاہتا ہوں۔‘‘ پھر پطرس اٹھے اور کہنے لگے ’’اس میں مشکل کون سی چیز تھی ؟ سر اقبال نے اپنا خطبہ لیڈیز اینڈ جنٹلمین سے شروع کیا تھا ، جس کا ترجمہ ہے :خواتین و حضرات ۔باقی رہا خطبہ تو اس کا مفہوم آپ مجھ سے بہتر سمجھ سکتے ہیں ۔ اس لئے السلام علیکم ۔ ‘ ‘ یہ کہہ کر پطرس بخاری بھی اپنی نشست پر واپس چلے گئے اور پورے ہال میں قہقہے امڈ پڑے۔
جس دن سے میں نے یہ واقعہ پڑھادل کو سکون آ گیا ہے، کیونکہ جب بھی میں نے اقبال کے خطبات انگریزی ، اردو ، سلیس اردو حتی کہ تشریح کے ساتھ پڑھنے کی کوشش کی ہے میرے پسینے چھوٹ گئے ہیں ۔ پڑھے لکھے افراد کی محفل میں جب بھی ان خطبات کا ذکر ہوتا اور کوئی صاحب سگریٹ کی راکھ کے ساتھ اپنی علمیت جھاڑتے ہوئے ان خطبات کا حوالہ دیتے تومیں حسرت سے ان کی شکل دیکھتا کہ کیسا کیسا گوہر نایاب اس ملک میں چھپا بیٹھا ہے ۔ آج پتہ چلا کہ وہ سب تُک بندی تھی ، جن خطبات کی سمجھ مولانا ظفر علی خان اور پطرس بخاری جیسی نابغہ روزگار شخصیات کو نہ آسکی ان کے بارے میں آج کے دانشور ایسے فلسفہ بھگارتے ہیں جیسے یہ بھی کوئی ٹاک شو کا موضوع ہو۔ دراصل ہمیں اسکول میں بتایا گیا تھا کہ اقبال شاعر مشرق اور ایک عظیم فلسفی تھے لیکن اگر کوئی نیم چڑھا دانشور یہ پوچھ لے کہ تم نے کیسے طے کر لیا کہ اقبال مشرق کا شاعر یا کوئی فلسفی تھا ، وہ تو بس لڑاکا قسم کے اشعار لکھا کرتا تھا جن میں خالی خولی جذباتیت کے سوا کچھ بھی نہیں تھا،تو بسا اوقات ایسے سوالوں کا خاطر خواہ جواب موقع پرنہیں سوجھتااور پھر ہم ایسے لوگوں سے متاثر بھی ہوجاتے ہیں جو اقبال کی ’’بزتی ‘ ‘ کرکے توجہ حاصل کر نے کی کوشش کرتے ہیں ، آج کل تو یہ ایک فیشن بھی ہے ۔یوں تو ہم سب نے اسکول کالجوں میں اقبال کے حالات زندگی اور خاص طور سے ان کی تعلیمی قابلیت کے بارے میں پڑ ھ رکھا ہے مگر کچھ باتیں دہرانی ضروری ہوتی ہیں کیونکہ ہماری قوم کی یاد داشت اس محبوبہ کی طرح ہے جو سالگرہ پر وصول کیا گیا تحفہ تو بھول جاتی ہے مگر آپ کا دیا گیا طعنہ یاد رکھتی ہے ۔اکثر لوگ اقبال پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کی تو ایم اے میں تھرڈ ڈویژن آئی تھی ، ایسا قابل تھا تمہارا فلسفی ، اور یہ کہتے ہوئے ان کی گردن فخر سے تن جاتی ہےگویا اقبال کی تھرڈ ڈویژن سے ان کی تھرڈ کلاس زندگی کو جواز مل جاتا ہے ۔ لیکن یہ نہیں بتاتے کہ گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے کرنے والے صرف تین طلبا کی فرسٹ ڈویژن آئی جبکہ سیکنڈ ڈویژن میں ستائیس طلبا پاس ہوئے جن میں اقبال کا میرٹ گیارہواں تھااور یہ بات بھی کوئی نہیں بتاتا کہ اقبال کے مضامین انگریزی اور عربی تھے اور ان مضامین کا انتخاب کرنے والوں میں اقبال کے نمبر سب سے زیادہ تھے ، عربی میں تو وہ یونیورسٹی بھر میں اول آئے تھے۔ایم اے میں اقبال نے مینٹل اینڈ مورل فلاسفی کا انتخاب کیا۔ اس زمانے میں ایم اے کے طلبا ایک سال میں ایم اے کرتے اور ساتھ ہی لا اسکول میں داخلہ لے لیتے جس کی عمارت گورنمنٹ کالج لاہور میں ہی واقع تھی، اقبال نے بھی لا اسکول میں داخلہ لے لیا جہاں تین سال تک زیر تعلیم رہنا ضروری تھا۔2 جنوری 1899 کو لا اسکول کا نتیجہ نکلا ،اقبال فرسٹ ائیر میں کامیاب نہ ہو سکے اور Outlines of General Jurisprudenceکے پرچے میں ناکام رہے ، اس کی وجہ یہ تھی کہ اس زمانے میں ایک سال میں دو امتحان پاس کرنا بہت مشکل تھا (دوسرا امتحان ایم اے )۔ 20 مارچ کو ایم اے فلسفہ کا نتیجہ آیا جس میں اقبال کی تھرڈ ڈویژن آئی مگر آپ یونیورسٹی کے واحد طالب علم تھے اس لئے یونیورسٹی میں اول آنے پر طلائی تمغہ ملا۔واضح رہے کہ اس زمانے میں مجموعی طور پر پچاس فیصد نمبر حاصل کرنا ضروری تھا اور اقبال نے 50اور 65فیصد کے درمیان نمبر حاصل کرکے ڈگری حاصل کی جو آج کے فرسٹ ڈویژن سے بہتر ہے ۔اقبال ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر کے مقابلے کے امتحا ن میں بھی شریک ہوئے اور کامیاب ٹھہرے مگر چونکہ ان کی دائیں آنکھ کی بینائی چھوٹی عمر میں ہی چلی گئی تھی اس لئے میڈیکل میں کلئیر نہ ہو سکے۔
ایم اے کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں اقبال بطور اسسٹنٹ پروفیسر فلسفہ تعینات رہے اور پھر وہاں سے رخصت لے کر بیرسٹری کی غرض سے انگلستان کا رخت سفر باندھا۔یکم اکتوبر 1905کو ٹرینٹی کالج کیمبرج میں داخلہ لیا اور یہیں انہوں نے بی اے کی ڈگر ی لینے کی غرض سے اپنا مقالہ The Development of Metaphysics in Persiaجمع کروایا ، بعد ازاں اسی مقالے میں ترمیم و اضافہ کرکے میونخ یونیورسٹی، جرمنی میں پی ایچ ڈی میں داخلے کی غرض سے جمع کروایا اور داخلے سے پہلے جرمن زبان بھی سیکھی۔ اس مقالے کے بارے میں اقبال کے غیر ملکی اساتذہ نے جو ریمارکس دئیے وہ تاریخی ہیں اور پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں ۔پھر اس دیو قامت فلسفی نے لنکنز ان میں داخلے کی درخواست جمع کروائی کہ وہاں سے بیرسٹر بننا تھا ۔ یہاں ایک بات بہت دلچسپ ہے کہ لنکنز ان میں داخلے سے پہلے ایک امتحان ہوا کرتا تھا جو تین پرچوں پر مشتمل تھا ، انگریزی ، لاطینی اور انگریزی تاریخ ۔ لاطینی زبان کے امتحان سے ہندوستانی طلبا کو چھوٹ دی گئی تھی اور یہی چھوٹ اقبال کو بھی ملی مگر اہم بات یہ ہے کہ جب قائد اعظم نے پہلی بار یہاں داخلہ لیا تھا جس وقت ان کی عمر صرف سولہ برس تھی تو انہوں نے ایک درخواست لکھی جس میں انہوں نے موقف اختیار کیا کہ بطور ایک ہندوستانی شہری وہ کئی زبانیں جانتے ہیں مگر انہیں لاطینی کبھی نہیں پڑھائی گئی جسے سیکھنے کے لئے اگر انہیں مجبور کیا گیا تو یہ امتحان پاس کرنے میں کئی سال لگ جائیں گے۔ لنکنز ان نے محمد علی جناح کی یہ درخواست منظور کر لی اور انہیں لاطینی سے استثنی قرار دے دیا اور بعد میں یہی چھوٹ تمام ہندوستانیوں کو ملی جو اقبال کے کام بھی آئی۔
یکم اکتوبر 1905سے لے کر یکم جولائی 1908یعنی تین سال سے بھی کم عرصے میں اقبال نے ٹرینٹی کالج کیمبرج سے بی اے کیا، میونخ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ لی اور لنکنز ان سے بیرسٹری کی ڈگری لی اور یہ تمام ڈگریاں انہوں نے کسی کتابی کیڑے کی طرح دن رات خود کو کمرے میں بند کرکے حاصل نہیں کیں بلکہ اس دوران ان کی خواتین سے دوستیاں بھی رہیں اور علمی مباحث بھی ہوئے۔اقبا ل کی زندگی کا یہ پہلو اگلے کالم کے لئے اٹھا رکھتے ہیں !
تازہ ترین